منظوم ترجمہ و تفسیر’’تنویرالقرآن‘‘ مولانا کیف الحسن قادری کا ایک تاریخی کارنامہ محمد حسین مشاہد رضوی
ترجمہ نگاری ایک مشکل فن ہے۔ مترجم کے لیے ہر دو زبانوں پر عبور ہونا لازمی امر ہے ۔ کسی بھی ادب پارے یا متن کے ترجمے سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ کرنا سب سے زیادہ مشکل ترین کام ہے ۔ اس میں مترجم کے لیے تفاسیر و احادیث کے علاوہ بہت سارے علوم و فنون پر عالمانہ و فاضلانہ دسترس رکھنا از بس ضروری ہوتا ہے ۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم بڑی تعداد میں کیے گئے ۔ بر صغیر ہندوپاک میں اردو زبان کے تشکیلی دور میں جب کہ یہاں فارسی کا غلبہ تھا ترجمہ نگاری کا باضابطہ آغاز ہوچکا تھا لیکن اردو کے محدود ذخیرۂ الفاظ کی وجہ سے شروع میں علما نے ترجمۂ قرآن کی طرف توجہ نہیں دی۔ اس دور میں اردو نہ صرف ادبی زبان بن کر اُبھر رہی تھی بلکہ باہمی رابطے کی ایک عام فہم زبان بھی بنتی جا رہی تھی جب کہ عربی زبان کے بعد فارسی زبان تیزی کے ساتھ رخصت ہونے لگی تو عوام تو عوام و خواص کے لیے بھی اب ترجمۂ قرآن اردو زبان میں ضروری سمجھا جانے لگا چناں چہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (م1176ھ)جو خود فارسی ترجمۂ قرآن کے بر صغیر میں اولین مترجمین میں شمار ہوتے ہیں ان کے دو صاحبزادوں کو اردو زبان کے ترجمۂ قرآن کے اولین مترجم ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ شاہ محمد رفیع الدین دہلوی (م 1233ھ/1817ء) نے اردو زبان کا پہلا مکمل لفظی ترجمۂ قرآن 1200ھ میں مکمل کیا جب کہ آپ کے چھوٹے بھائی شاہ محمد عبدالقادر دہلوی (م 1230ھ/1814ء) نے اردو زبان کی تاریخ کا پہلا مکمل با محاورہ ترجمہ قرآن 1205 ھ /1790ء میں مکمل کیا۔ یہ دونوں تراجم قرآن تیرھویں صدی ہجری ہی میں شائع ہونا شروع ہوگئے تھےجس کے باعث ان کو اولیت کے ساتھ ساتھ پذیرائی بھی حاصل ہوئی اگرچہ تاریخ میں ان دونوں اردو تراجم قرآن سے قبل کے بھی تراجم پائے جاتے ہیں لیکن یا تو وہ مکمل ترجمۂ قرآن نہیں تھے یا مخطوطہ تھے اورضائع ہو گئے اس لحاظ سے ان دونوں بھائیوں کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ایک لفظی ترجمۂ قرآن کا حامل ہے تو دوسرا با محاورہ ترجمہ قرآن کا ۔ گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کا دامن جیسے جیسے وسعت اختیار کرتا گیا اردو میں قرآن کریم کے ترجمہ کے ساتھ ساتھ تفسیر کی روایت بھی چل پڑی ۔ بہت سارے حضرات نے اردو میں ترجمہ کیا اور تفسیری حواشی بھی قلم بند کیے جن میں سر سید احمد خاں، نذیر احمد دہلوی ، مولوی عاشق الٰہی میرٹھی ، مولوی فتح محمد جالندھری ، مرزا وحیدالزماں ، مولوی عبداللہ چکڑالوی ، ابو الکلام آزاد ، چودھری غلام احمد ، عبدالماجد دریاآبادی، مولوی فیروز الدین روحی، مولوی محمد جونا گڑھی ، مرزا حیرت دہلوی ، مولوی عبدالحق، مولوی محمد نعیم دہلوی، مولوی اشرف علی تھانوی ، مولوی محمود الحسن دیوبندی،شبیر احمد عثمانی، ابوالاعلیٰ مودودی،امین احسن اصلاحی، امام احمد رضا بریلوی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ فی زمانہ اردو دنیا میں امام احمد رضا بریلوی کے اردو ترجمۂ قرآن ’’کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن‘‘ اور اس پر لکھے گئے مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی کے تفسیری حواشی ’’خزائن العرفان‘‘ کو بے پناہ شہرت و مقبولیت حاصل ہے ۔ دہلی اور لاہور کے قرآن پبلشرز سب سے زیادہ انھیں دو حضرات کے ترجمہ و تفسیر کو کثیر تعداد میں مسلسل شائع کررہے ہیں ۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کسی چیز کو نثر کی بہ نسبت نظم کے انداز میں کہنا مشکل اور پیچیدہ ہوتا ہے۔اس مشکل کے باوجود اردو داں طبقے نے قرآنِ کریم کے معانی و مفہوم کو نظم کی شکل میں پیش کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ اب اس کوشش میں وہ کس حد تک کامیاب ہیں یہ ایک علاحدہ معاملہ ہے۔قرآن کریم جیسی الہامی کتاب کا نثری ترجمہ ہی کافی مشکل اور حددرجہ احتیاط کا متقاضی ہے تو اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسے شعری قالب میں ڈھالنے میں کس قدر محنت اور احتیاط درکار ہے ؟ برِصغیر میں قرآن کریم کا پہلا منظوم ترجمہ 1828ء میں مولانا قاضی عبدالسلام سلامؔ بدایونی ابن عطاء الحق بدایونی عباسی (وفات 1289ھ) نے ’’زاد الآخرت ‘‘ کے نام سے کیا تھا اور یہ منظوم ترجمہ 1868ء میں مطبع نولکشور لکھنؤ سے چار ضخیم جلدوں میں شائع ہوا تھا۔ مولانا قاضی عبدالسلام بدایونی رامپور میں قاضی تھے ۔ سید آلِ احمد بن سید حمزہ حسینی مارہروی قد س سرہماسے بیعت کا شرف حاصل تھا ۔آپ کا منظوم ترجمۂ قرآن غالباً اردو میں پہلی کوشش تھی جو اس مشکل میدان میں کی گئی تھی۔ ترجمہ بے حد عمدہ ہے ۔ مثال کے طور پر سورۃ الفاتحہ کا ترجمہ مترجم نے اس طرح کیا ہے :
جملہ خوبی خدا کو ہے شایاں کہ ہے پروردگارِ عالمیاں کہ بہت مہر و رحم والا ہے جس کی رحمت بیاں سے بالا ہے کہ وہی بادشاہِ روزِ جزا (شاہی) اس دن کی ہے اسی کو جزا تجھ کی ہے کرتے ہیں عبادت ہم اور تجھ سے ہی استعانت ہم کہ مراد اس سے ہے کتاب اللہ راہ ان کی ہمیں ہدایت کر تو نے انعام کردیا جن پر اور نہ گمراہوں کی وہ ہودے راہ ایسی راہوں سے ہم کو رکھ لے نگاہ
مذکورہ ترجمے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر نے کسی قدر کوشش کی ہے کہ سورۂ فاتحہ میں دی گئی ہدایت کو شعری جامہ پہنا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ زبان پر قدیم اردو کا رنگ غالب ہے ، کیوں کہ اس طرح کا یہ سب سے پہلا ترجمہ ہے۔ اسی طرح محمد شمس الدین شائق ایزدی نے بھی قرآن کریم کا منظوم اردو ترجمہ کیا تھا جو ’’قرآن کریم کے معانی کا منظوم ترجمہ‘‘ کے نام سے مطبع اتحادیہ لاہور سے 1342 ہجری، 1923 عیسوی میں شائع ہوا۔ یہ ترجمہ 2966 پر پھیلا ہوا ہے، اس میں کل 25679 شعر ہیں۔ علاوہ ازیں ابراہیم بیگ مرزا چغتائی (وفات: 1940 عیسوی) نے بھی قرآن کریم کا منظوم اردو ترجمہ کیا جو آگرہ سے 1934ء میں طبع ہوا۔ اثر زبیری لکھنوی نے بھی قرآن کریم کا منظوم ترجمہ موسوم بہ ’’سحر البیان‘‘ کیا جو کہ کراچی سے 1370ھ ، 1951ء میں شائع ہوا۔ 1498 صفحات پر مشتمل اس منظوم ترجمہ سے قرآن کریم کی آیاتِ کریمہ تلک الرسل فضلنا ……… کا ترجمہ پیش خدمت ہے:
ہماری سمت سے بھیجے ہوئے یہ سارے پیغمبر فضیلت ہم نے ان میں بعض کو دی بعض کے اوپر کچھ ان میں وہ ہیں مولیٰ نے تکلم جن سے فرمایا اور ان میں بعض کو اس نے علوے مرتبت بخشا
اسی طرح دبستانِ داغ کے مشہور شاعر علامہ عاشق حسین سیمابؔ اکبر آبادی( م 1951ء) نے بھی ’’وحیِ منظوم‘‘ کے نام سے قرآن کریم کا منظوم ترجمہ کیا۔ جسے سیماب اکیڈمی پاکستان کراچی نے نہایت اہتمام کے ساتھ 1981ء میں شائع کیا ہے۔ جو کہ 976 صفحات پر مشتمل ہے۔ سیماب ؔکے ترجمے میں زبان و بیان کی پختگی اور بلا کی سلاست و روانی پائی جاتی ہے ۔ سیماب کی ’’وحیِ منظوم‘‘ سے سورۂ الم نشرح کا ترجمہ نشان خاطر کریں :
نام سے اللہ کے کرتا ہوں آغازِ بیاں جو بڑا ہی رحم والا ہے نہایت مہرباں کیا نہیں کھولا تمہار اسینہ ہم نے اے نبی! اور تمہار بوجھ تم پر سے اُتارا ( واقعی) بار سے جس کے تمہار ی ٹوٹی جاتی تھی کمر اور تمہار ےذکر کو دیں رفعتیں ( ہر ذکر پر) ساتھ مشکل کے ہے آسانی یقیناً ( اے نبی) ساتھ دشواری کے آسانی بھی ہے بے شک لگی جب فراغت ہو ( تردد سے ) ریاضت تم کرو اور (دل سے) اپنے رب ہی کی طرف راغب رہو
محمد محسن (وفات 1429ھ) نے بھی منظوم ترجمۂ قرآن‘‘ کے نام سے کیا جسے نظامی پریس لکھنؤ نے 1986ء میں شائع کیا ۔ یہ منظوم ترجمہ کل بیس ہزار اشعار پر مشتمل ہے ۔ سورۂ طارق سے چند اشعار درج کیے جاتے ہیں :
بنام خدا کرتے ہیں ابتدا ترس اور رحم کھاتا ہے جو سدا بلاشبہ اس آسماں کی قسم نکلتا جو اس سے ہے اس کی قسم نکلتا ہے کیا تم سمجھتے ہو کیا ہے روشن ستارا نکلتا سدا
ماضی قریب میں عبد العزیز خالدؔ کا اردو منظوم ترجمۂ قرآن موسوم بہ ’’فرقانِ جاوید‘‘ ادبی حلقوں میں کافی مقبول رہا جسے مقبول اکیڈمی پاکستان نے 1988ء میں شائع کیا۔ جو کہ 1072 صفحات پر مشتمل ہے۔ یوں ہی انجم عرفانی بلرامپوری نے بھی ’’منظوم القرآن‘‘ کے نام سے قرآن کا لفظی منظوم اردو ترجمہ کیا جسے خود مترجم نے 2005ء اور 2006ء میں 5 حصوں میں شائع کیا ۔ یہ ترجمہ بہ قول مترجم آزاد نظم کی ہیئت میں کیا گیاہے ۔ جب کہ اس میں مخصوص بحر کا لحاظ بھی دکھائی نہیں دیتا اور اور نہ ہی سلاست و روانی پائی جاتی ہے ۔ ان حضرات کے علاوہ بہاء الدین باجنؔ، جعفر حسین شاہ، آغاشاعرؔ قزلباش دہلوی ، مرزا ابراہیم بیگ چغتائی، غلام محی الدین اویسیؔ، کیفؔ بھوپالی، منصور فخریؔ، محسنؔ بھوپالی، اصغر علی کوثرؔ، عقیل روبیؔ، محمد سمیع اللہ اسدؔ، ڈاکٹر مختار عالمؔ وغیرہ نے بھی قرآن مجید کا منظوم ترجمہ کیاہے۔ ان کے علاوہ چیدہ چیدہ آیات اور مختلف سورتوں کے منظوم اردو ترجمہ و تفسیر جوشؔ ملیح آبادی، مولانا محمد علی جوہرؔ، مولوی ظفر علی خان، مولوی اشرف علی کاندھلوی، پروفیسر مقصود احمد مقصود اور دیگر بہت سارے شاعروں نے بھی کیے ہیں ۔ اردو میں منظوم ترجمہ نگاری اور منظوم تفسیر نگاری کا یہ سفر اب بھی جاری و ساری ہے ۔ اس وقت میرے مطالعے کی میز پر مولانا کیف الحسن قادری کا منظوم ترجمہ و تفسیر ’’تنویر القرآن‘‘ سجا ہوا ہے ۔ زیرِ نظر منظوم ترجمہ و تفسیر اردو زبان کے مقبول ترین ترجمۂ قرآن و تفسیر ’’کنز الایمان اور خزائن العرفان‘‘ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی و صدرالافاضل مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی کی روشنی میں فاضل مترجم نے کیا ہے ۔ مولانا کیف الحسن قادری اہل سنت و جماعت کے ایک جید عالمِ دین ہیں ۔ موصوف اعلیٰ تدریسی صلاحیتوں کے مالک ہیں ۔ اردو نثر و نظم دونوں میں ملکہ رکھتے ہیں ۔زبان و بیان پر انھوں عالمانہ قدرت حاصل ہے۔ شعر گوئی میں انھیں بڑا درک ہے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اردو میں منظوم ترجمہ و تفسیر قرآن کی سعیِ بلیغ شروع کی اور اس میں بے طرح کامیاب دکھائی دیتے ہیں ۔ آپ کے منظوم ترجمے میں زبان کی پختگی بھی ہے اور بیان کی چاشنی بھی ۔ بلا کی سلاست بھی ہے اور فنی نفاست بھی ۔ برجستگی بھی ہے اور منظر کشی کا حسن بھی ۔ ایک شخص یا تو ہے شاعر ہوتا یا تو عالم؛ مولانا کیف الحسن قادری بیک وقت عالم بھی ہیں اور شاعر بھی یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں منظوم ترجمہ و تفسیرِ قرآن کے دوران لفظیات کے انتخاب میں محتاط رویہ دکھائی دیتا ہے ۔ موصوف چوں کہ اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی ادبیات پر بھی ملکہ رکھتے ہیں اس لیے ان کا پیرایۂ زبان و بیان اور ترجمے کا اسلوب تنوع لیے ہوئے ہے ۔ ترجمے اور تفسیر کی پیش کش کا انداز بھی بڑا عمدہ اور قاری کے لیے سہل ترین ہے ۔ منظوم ذیلی سرخیوں کے ساتھ معانی و مفاہیم کو دلچسپی کے ساتھ ممتاز کیا گیا ہے ۔نیزقرآن کریم کی شان ، فہرست ، صاحبِ کنزالایمان کا تعارف ، صاحبِ خزائن العرفان کا تعارف ، خود فاضل مترجم کا تعارف ، دیباچہ غرض یہ کہ مولانا کیف الحسن قادری کے زرنگار قلم سے ’تنویر القرآن ‘‘ کے صفحے صفحے پر جو گلکاریاں کی ہیں وہ سب کے سب منظوم ہی ہیں۔ یہ منظوم ترجمہ و تفسیر کسی گنج ہاے گراں مایہ سے کم نہیں ۔بہ قول ڈاکٹر غلام مصطفیٰ نجم القادری: ’’میں سمجھتا ہوں یہ ایک مینارۂ فن ہے ، استعارۂ شعور ہے ، گہوارۂ علم و ادب جس میں نظم کا بانکپن بھی ہے ۔ نغمگی کا حسن بھی ہے اور معنویت کی کیفیت میں شریعت کا خاص خیال بھی ۔ اس میں جو بھی ہے وہ سب نظم کے پیرہن میں ملبوس قلم کاری ، ندرت کاری ، جدت شعاری کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ ہے ۔‘‘ (تنویر القرآن ، ج 1 ، ص 58) چوں کہ مولانا کیف الحسن قادری صاحب کے زیرِ نظر منظوم ترجمۂ قرآن و تفسیر کی بنیاد و اساس ’’کنزالایمان اور خزائن العرفان‘‘ ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے منظوم ترجمے اور تفسیر میں محتاط رویہ پایا جاتا ہے ۔ اہل سنت و جماعت کی شہرۂ آفاق خوش عقیدگی کے جلوے ورق ورق پر بکھرے نظر آتے ہیں ۔ ذیل میں ’’ تنویر القرآن ‘‘ سےچیدہ چیدہ مثالیں نشانِ خاطر کریں: جلد اول میں ،’’ شانِ فرقانِ حمید ‘‘کے عنوان سے قرآنِ کریم کی جو منظوم شان رقم فرمائی ہے، اس میں بلا کی چاشنی ، روانی ، شگفتگی اور برجستگی پائی جاتی ہے :
پیشِ اللہ و نبی عرضِ گدا ہے پیشتر: نامِ حق کی برکتوں کا سربسر سائل ہوں میں راہ دکھلادے خدا یا ! رہروِ منزل ہوں میں میرے لب سے نکلے پیہم نغمۂ حمد وصلوٰۃ میری یہ کاوش ہو میرے حق میں سامانِ نجات رنگ چڑھ جائے مرے افکار پر قرآن کا تارمق کرتا رہوں اعلان اس کی شان کا
نظم میں جب برجستگی کے ساتھ محاورات اور روزمرہ کااستعمال ہوتا ہے تواس کاکیف دوبالا ہوجاتا ہے ، اوپر کے اشعار میں ’’رنگ چڑھ جانا‘‘ خوب صورتی سے اور بے ساختگی کی عمدہ مثال ہے ۔ سلاست و روانی اور سادگی کے ساتھ پُرکاری کی جلوہ سامانیاں ابتدا ہی سے ہمیں اپنی طرف کشش کرتی ہے اور اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ پورا منظوم ترجمہ بالاستیعاب مطالعہ کیا جائے ۔’’ اکتشافاتِ جدیدہ اور قرآنِ مبیں‘‘ عنوان کے تحت سائنس و ٹیکنالوجی پر قرآن کے تفوق اور برتری کو بڑے دل نشین پیرایۂ اظہار میں بیان کیا ہے، اردو اور فارسی لفظیات کے ساتھ انگریزی لفظیات کی آمیزش کے باوجود شعر ی سلاست مجروح نہیں ہوتی:
وہ یقیناً ہر عروج و ارتقا کی جان ہے پیشوا سائنس و ٹکنالوجی کا قرآن ہے بالیقیں اس کا نظامِ انکشاف واکتشاف کرتا جائے گا رخِ حُسن و صداقت واشگاف
قرآن کریم کی منظوم شان بیان کرنے کے بعد مولانا کا زرنگار قلم مترجم کنزالایمان اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی کا منظوم تعارف بڑے ہی دل آویز انداز میں کرتا ہے اور اس کے بعد صاحبِ خزائن العرفان صدرالافاضل مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی کا تعارف بھی بڑے ہی دلکش انداز میں منظوم پیش کیا ہے ۔ ہر دو بزرگ شخصیات کے تعارف کے بعد ’’نشانِ بے نشاں ‘‘ کے عنوان سے مولانا کیف الحسن قادری نے بڑی عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنا خود کاشناخت نامہ منظوم کیا ہے جو کہ بڑا ہی پر لطف ہے۔ منظوم دیباچہ کے بعد ’’تنویر القرآن جلد اول ‘‘ کا سرنامۂ سخن ’’ڈھونڈیئے گنجِ معارف پڑھ کے فہرستِ کتاب‘‘ کے عنوان سے وا ہوتا ہے اور جب فہرست پر نظر پڑتی ہے تو فاضل مترجم /شاعر کے علم و فضل اور شعری و فنی علو پردل کی گہرائیوں سے بے ساختہ داد و دعا نکلتی ہے۔ صرف فہرست پر ہی کوئی ناقد یا مبصر چاہے تو مبسوط انداز میں تجزیاتی مقالہ تحریر کرسکتا ہے۔ واقعی میں مولانا کیف الحسن قادری صاحب نے ایک نہایت مشکل کام سر انجام دیا ہے جس کے لیے ان کی جتنی سراہنا کی جائے کم ہے۔ سورۂ فاتحہ کے منظوم تعارف و فضائل کے بعد تعوذ کو یوں منظوم کیا ہے:
مانگتا ہوں میں پناہ اللہ کی ، شیطان سے جو ہے دُھتکارا ہوا اس کے درِ ذی شان سے
’درِ ذی شان‘ کا جواب نہیں ، اب تعوذ کی تفسیر کچھ یوں نظم کرتے ہیں :
استعاذہ کے تعلق سے مسائل دیکھیے: مسئلہ یہ استعاذہ کا بخوبی جان لیں سنت اس کا پڑھنا ہے قرآن کے آغاز میں طالبانِ علم پڑھتے ہوں اگر استاذ سے تو یہ اس لمحہ نہیں مسنون ان کے واسطے جب رکے ’’ سبحانَ‘‘ کہہ کر منفرد یا مقتدا تو لبوں پر حسبِ سنت ہو تعوذ کی صدا
کس قدر روانی اور سلاست کے ساتھ مسئلہ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے نیزخزائن العرفان کی نثر کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ نظم کاپیرہن عطا کیا ہے۔ پھر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کو یوں نظم کیا ہے :
رب تعالیٰ کے مبارک نام سے ہے ابتدا رحم والا جو بہت ہے صاحبِ رحمت بڑا
بعدہٗ ’’دے رہی ہے دعوتِ نظارہ شانِ بسملہ‘‘ کے عنوان سے بسم اللہ کی تفسیر منظوم کی ہے: سورہ فاتحہ کی پہلی آیت کی منظوم ترجمانی دیکھیے:
خوبیاں اللہ کو زیبا ہیں ، اس کو سب ثنا جو حقیقت میں ہے کل سنسار والوں کا خدا
اردو لفظیات میں ’’سنسار‘‘ جیسے خالص ہندی لفظ کی آمیزش بھی خوب ہے ۔ لفظ رب العالمیں کی تفسیرقابلِ دید ہے ،ذیلی سرخی یوں لگائی ہے :
جامعیت سے مزین لفظِ رب العالمیں لفظِ رب العالمیں سے ہوگئی واضح یہ بات حادث و ممکن ہے اور محتاج ساری کائنات بس خدائے پاک کی اک ذات ہےواجب قدیم حی و قادر ،ازلی ، ابدی اور قیوم و علیم
اللہ رب العزت سے متعلق عقائد کو خوب صورتی کے ساتھ نظم کیا ہے اور انداز بھی ایسا سلیس اور بامحاورہ ہے کہ آسانی سے ازبر کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح پہلی جلد میں جابجا باادب انداز میں کنزالایمان اورخزائن العرفان کی منظوم ترجمانی کا حق ادا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ سورہ توبہ کی آیت122 وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ کا ترجمہ اور تفسیر دیکھیں:
اور مسلمانوں سے (بےشک) یہ تو ہوسکتا نہیں ہاں سبھی نکلیں ( مکمل چھوڑ دیں اپنی زمیں) تو نہ کیوں (ایسا )ہوا: ان کے ہر اک طبقہ میں سے (ایک ٹھہرے )اک جماعت دیس اپنا چھوڑ دے آگہی حاصل کریں ( از فضلِ مولیٰ ) دین کی ڈر سنائیں قوم کو اپنی ، بوقتِ واپسی اس توقع پر کہ وہ (قہرِ الٰہی سے) بچیں (طاعتِ احکامِ دیں کا پرکشش قصہ رچیں)
قرآن کریم کا نثر میں ترجمہ کرنا بڑا مشکل امر ہے۔ نظم کے تنگناے میں تو یہ امر اور بھی دقت طلب ہوجاتا ہے جہاں فن کی کئی پابندیاں شاعر کے پیروں کی بیڑی بنی ہوتی ہے ۔ درج بالا منظوم ترجمانی ایک بار اور پڑھیے اور سر دھنیے کہ مولاناکیف الحسن قادری کا قلم کس طرح آسانی کے ساتھ اس مشکل مقام سے گذر رہا ہے۔ مذکورہ بالا آیت کریم کی تفسیر منظوم کرتے ہوئے مختلف پہلوؤں کوخوب صورتی سے اجاگر کیا ہے، شعریت کاحسن بھی ہے اور زبان و بیان کی شائستگی و شگفتگی بھی :
علم کی تحصیل افضل ہے نمازِ نفل سے: ہے حدیثِ پاک میں ارشادِ فخر المرسلیں فرض ہے ایمان والوں پر تلاشِ علمِ دیں قول ہےحضرت امام الشافعی کا دیکھیے علم کی تحصیل افضل ہے نمازِ نفل سے اور یہ بھی ہے نمایاں آیتِ قرآن سے ہے سفر کا حکم علمِ دیں کو پانے کے لیے قولِ آقا ہے : تلاشِ علم کی رہ جو چلے راہِ جنت کرتا ہے آساں ، خدا اُس کے لیے
سورہ توبہ کی آیت 128 لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ کا منظوم ترجمہ و تفسیر تو روح و قلب کو شاد کام کردیتا ہے ، اور اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ قرآنِ کریم کی تفسیر میں نعتِ مصطفیٰ ﷺ کی تجلیاں پھوٹتی ہیں، اندازِ بیان محبت و الفت کا آئینہ دار تو ہے ہی ساتھ ہی فنی لحاظ سے بھی شعریت کے جمال کا پرتو بھی ہے:
آئے تم میں سے تمہارے پاس وہ پیغامبر (رحمۃ للعالمیں ہے ذات جن کی مقتدر) (یعنی جن کانامِ نامی ہے محمدمصطفیٰ) ہے گراں جن پر ، تمہار ا ہونا کلفت آشنا جو ہیں فی الواقع تمہارے انتہائی خیر خواہ مومنوں پہ رحم والے، مہربانِ بے پناہ
آیت بالا کی تفسیر میں مدحتِ مصطفیٰ ﷺ کے گل بوٹے کھلاتے ہوئے صداقت شعاری کی روشنی سے ہمیں منور کرتے ہیں :
آمدِ محبوبِ باری کا مقدس تذکرہ: آئے تم میں سے تمہارے پاس وہ پیغامبر (رحمۃ للعالمیں ہے ذات جن کی مقتدر) وہی ہیں نسلی طور پر لاریب اک قرشی عرب خانداں مشہور ہے ان کا، شرافت کے سبب وہ محمد بالیقیں ہیں تم میں سب سے ذی نسب مانتے ہو تم انھیں صادق ، امین و حق طلب
آگے نامِ مصطفیٰ ﷺ میں رب العزت کے دوناموں کی شمولیت کا ایمان افروز نظارا یوں دکھاتے ہیں:
ہے مشرف رب کے دو ناموں سے نامِ مصطفیٰ: مومنوں پہ رحم والے ، مہربانِ بے پناہ دیکھیے آیت میں شانِ فضلِ ربِّ مہر و ماہ متصف اپنے ہی دو ناموں سے حضرت کو کیا یہ بڑے درجے کی ہے تکریمِ شاہِ انبیا
سورہ یونس آیت 84 وَقَالَ مُوسَىٰ يَا قَوْمِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ کی منظوم ترجمانی و منظوم تفسیر سے امت کواصلاحی پیغام دیا ہے ، جس میں شعری حُسن و جمال دیدنی بھی ہے اور شنیدنی بھی :
اور موسیٰ نے کہا (بے شک بلا خوف و خطر) لائے تم ایماں اگر اے میری قوم ! اللہ پر تو اسی پر مرتکزرکھو توکل کی نظر (خوبیِ تقدیرسے)رکھتے ہو تم اسلام اگر
تفسیر : بندے کو لازم ہے بس اللہ پر تکیہ کرے: ہاں یہ وہ نسخہ ہے ، ایماں جس سے پاتا ہے کمال: تو اسی پر مرتکزرکھو توکل کی نظر (خوبیِ تقدیرسے)رکھتے ہو تم اسلام اگر اپنی طاعت والوں کی امداد فرماتا ہے وہ کیفرِ کردار تک اعدا کو پہنچاتاہے وہ
المختصر یہ کہ مولانا کیف الحسن قادری صاحب نے بڑی عرق ریزی، جاں کاہی، جگر کاوی اور نہایت جانفشانی کے ساتھ ایک مشکل ترین کام کو سرانجام دیا ہے۔ مثنوی کی ہیئت میںبحرِ مخصوص کا خیال رکھتے ہوئےکیا گیا یہ منظوم ترجمہ و تفسیر ہر اعتبار سے لائق تحسین و آفرین ایک تاریخی کارنامہ قرار دیے جانے کا بجا طور پر مستحق ہے ۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہلی جلد کے منظر عام پر آنے کے بعد مولانا کیف الحسن قادری صاحب کے اس مہتم بالشان کام کی جیسی پذیرائی کی جانی چاہیے ویسی نہیں کی گئی اور نہ ہی علمی و ادبی حلقوں میں ان کے کام کا کماحقہٗ تعارف ہی ہوسکا ۔ اہل سنت کی نمایندہ انجمنوں ،اداروں اور تنظیموں کےاعوان و انصارکو چاہیے کہ فاضل مترجم کی شایانِ شان حوصلہ افزائی کریںتاکہ بقیہ حصے بھی جلد از جلد پایۂ تکمیل تک پہنچتے ہوئے منصہ شہود پر جلوہ گر ہمیں شاد کام کریں۔ ناچیز مشاہد رضوی ’’تنویر القرآن ‘‘کے مطالعے سے بے پناہ مسرت و انبساط محسوس کرتا ہے اور اس امر پر نازاں ہے کہ ہماری جماعت میں اب بھی ایسے عالی دماغ، بالغ نظر،ذہین اور باصلاحیت علما موجود ہیں جن پر آنے والی نسلیں ناز کریں گی ۔اللہ کریم ان کی اس کاوشِ جمیلہ و عظیمہ کو شرف ِقبول بخشے اور ان کے لیے توشۂ نجات بنائے ، آمین بجاہ النبی الامین الاشرف الافضل النجیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ و صحبہٖ وبارک وسلم !
(ڈاکٹر) محمد حسین مشاہدرضوی ، مالیگاؤں 17؍ ذی الحجۃ الحرام 1441ھ / 8؍ اگست 2020ء بروز سنیچر