ملا جس کی نسبتوں سے یہ عروج آگہی کو
اسی در کی آرزو ہے مرے ذوقِ بندگی کو
مرا دین اور دنیا تو الگ الگ نہیں ہیں
میں سمجھ رہا ہوں سب کچھ ترے در کی حاضری کو
مرے آنسوؤں کی قیمت نہ سمجھ سکے گی دنیا
مجھے کیادیا ہے تو نے یہ بتاؤں کیوں کسی کو
وہ کریم جس کا دامن ہے عدو پہ بھی کشادہ
میں خراب ہوں تو کیا ہے مری لاج ہے اسی کو
ترا غم مسرتوں کا ہے ابد قرار ضامن
شب و روز مل رہا ہے نیا حسن زندگی کو
کوئی نامراد ہو کر ترے آستاں سے جائے
نہ ہواکبھی گوارا تری بندہ پروری کو
اے ازل ابد کے ساقی ابھی کچھ کمی ہے باقی
وہ نظر اٹھا جو بھر دے مرے زخم تشنگی کو
وہ شعور چاہتا ہوں وہ نگاہ چاہتا ہوں
تری روشنی سمجھ لے جو ہر ایک روشنی کو
وہ خدا جو نعتِ سرور سے بہت ہی خوش ہے خاؔلد
وہ نکھارتا رہے گا مرے حُسنِ شاعری کو