مقبول دعا کرنا منظور ثنا کرنا مدحت کا صلہ دینا مقبول ثنا کرنا
دل ذکر شریف ان کا ہر صبح و مسا کرنا دن رات جپا کرنا ہر آن رٹا کرنا
سینہ پہ قدم رکھنا دل شاد مرا کرنا درد دل مضطر کی سرکار دوا کرنا
سنسار بھکاری ہے جگ داتا دیا کرنا ہے کام تمہارا ہی سرکار عطا کرنا
کب آپ کے کوچہ میں منگتا کو صدا کرنا خود بھیک لئے تم کو منگتا کو ندا کرنا
دن رات ہے طیبہ میں دولت کا لٹا کرنا منگتا کی دوا کرنا منگتا کا بھلا کرنا
ہم عین جفا ہی ہیں ہم کو تو جفا کرنا اور تم تو کرم ہم پر اے جان وفا کرنا
دن رات خطاؤں پر ہم کو ہے خطا کرنا اور تم کو عطاؤں پر ہر دم ہے عطا کرنا
ہم اپنی خطاؤں پر نادم بھی نہیں ہوتے اور ان کو عطاؤں پر ہر بار عطا کرنا
ہم آپ ہی اپنے پر کرتے ہیں ستم حدبھر اور ان کو کرم ہم پر ہے حد سے سوا کرنا
ہے آٹھ پہر جاری لنگر مرے داتا کا ہر آن ہے سرکاری باڑے کا لٹا کرنا
محروم نہیں جس سے مخلوق میں کوئی بھی وہ فیض انہیں دینا وہ جود و سخا کرنا
ہے عام کرم ان کا اپنے ہوں کہ ہوں اعدا آتا ہی نہیں گویا سرکار کو لا کرنا
محروم گیا کوئی مایوس پھرا کوئی دیکھا نہ سنا ان کا انکار و ابا کرنا
مایوس گیا کوئی محروم پھرا کوئی دنیا کے سلاطیں کو کب آیا عطا کرنا
دکھ درد کہیں کس سے یہ کام تو ہیں ان کے فریاد سنا کرنا اور داد دیا کرنا
واللہ وہ سن لیں گے اور دل کی دوا دیں گے بے کار نہ جائے گا فریاد و بکا کرنا
اعدا کو خدا والا جب تم نے بنا ڈالا دشوار ہے تم پر کیا مجھ بد کا بھلا کرنا
سوکھی ہے مری کھیتی پڑ جائے بھرن تیری اے ابرِ کرم اتنا تو بہر خدا کرنا
جو سوختہ ہیزم کو چاہو تو ہرا کر دو مجھ سوختہ جاں کا بھی دل پیارے ہرا کرنا
طیبہ میں بلا لینا اور اپنا بنا لینا قیدی غم فرقت کے سرکار رہا کرنا
ہم عرض کئے جائیں سرکار سنے جائیں کیا دور کرم سے ہے دن ایسا شہا کرنا
سنگ در سرور پر رکھا ہوا ہو یہ سر اے کاش ہو قسمت میں اس طرح قضا کرنا
کھل جائیں چمن دل کے اور حزن مٹیں دل کے طیبہ سے صبا آ کے امداد ذرا کرنا
ہر داغ مٹا دینا اور دل کو شفا دینا آئینہ بنا دینا ایسی تو جلا کرنا
سرور ہے وہی سرور اے سرور ہر سرور ہے آپ کے قدموں پر سر جس کو فدا کرنا
شہرہ لب عیسیٰ کا جس بات میں ہے مولا تم جان مسیحا ہو ٹھوکر سے ادا کرنا
تو جان مسیحا سے حالت مری جا کہنا اتنا تو کرم مجھ پر اے باد صبا کرنا
پردہ میں جو رہتے ہو پردہ ہے چلے آؤ آنکھوں میں بسا کرنا تم دل میں رہا کرنا
اف کیسی قیامت ہے یہ روز قیامت بھی سورج ہے وہیں قائم بھولا ہے ڈھلا کرنا
للہ ہمیں مولیٰ دامن کے تلے لے لو ہم کیسی بلا میں ہیں ہاں رد بلا کرنا
یہ ظل کرامت ہے ہم سایۂ رحمت ہے یہ سایۂ رأفت ہے دامن ذرا وا کرنا
اے ظل خدا سایہ ہے آج کہاں پایا ہم سائے کو آئے ہیں تم سایہ ذرا کرنا
لب تشنہ ہے گو ساقی تشنہ تری رویت کا رویت جو نہ ہو تیری تو جام کا کیا کرنا
ہوں تشنہ مگر ساقی دیدار کے شربت کا اک جام مجھے پیارے للہ عطا کرنا
تشنہ میں نہیں اس کا تشنہ ہوں میں رویت کا ساقی مجھے کوثر کے ساغر کو ہے کیا کرنا
ہے پیاس سے حال ابتر نکلی ہے زباں باہر اک جام مجھے سرور کوثر کا عطا کرنا
جو دل سے تجھے چاہیں جو عیب ترے ڈھانپیں اے نفس تجھے ان سے کم بخت دغا کرنا
وہ تیرا برا چاہیں ممکن ہی نہیں ان سے اعدا کی بھلائی کی جن کو ہے دعا کرنا
دنیا بنے یا بگڑے دنیا رہے یا جائے تو دین بنا پیارے دنیا کا ہے کیا کرنا
کھایا پیا اور پہنا اچھوں سے رہا اچھا کچھ دین کا بھی کر لے دنیا کا ہے کیا کرنا
قسمت میں غم دنیا جنت کا قبالہ ہو تقدیر میں لکھا ہو جنت کا مزا کرنا
دنیا میں جو روتے ہیں عقبیٰ میں وہ ہنستے ہیں دنیا میں جو ہنستے ہیں ہے ان کو کڑھا کرنا
موسیٰ ہوئے غش جس سے اور طور جلا جس سے وہ جلوہ مرے دل پر اے نور خدا کرنا
برباد نہ ہو مٹی اس خاک کے پتلے کی اللہ مجھے ان کی خاک کف پا کرنا
کیوں نقش کف پا کو دل سے نہ لگائے وہ ہے آئینۂ دل کی نوریؔ کو جلا کرنا
سامانِ بخشش