مرجائیے کافی بتولائے مدینہ ہو شمع لحد داغ تمنائے مدینہ
فصاحت میں لطافت میں نظامتیں شروں فردوس سے برتر ہے یہ اقصائے مدینہ
سمجھو میں اسی دولت دیدار کی صورت گر خواب میں یہی مجھ کو نظر آجائے مدینہ
قربان کروں اس پہ مغلائے جہاں کو جو والا وہ شیدا ہے بسودائے مدینہ
کحل البصر و چشم ملائک ہے ازل سے یہ خاک شفا کبر و مصفائے مدینہ
اقصائے دیار عربے فخر جہاں ہے ہے فخر عرب وادی اقصائے مدینہ
شورنمک حسن عیاں جہاں نئے ہر سبزہ نو خیز بصحرائے مدینہ
ہے غربت خال رخ حوران نہشتی ہے داغ سہاہ لا ایبی صحرائے مدینہ
اُس سر کو سرو کار نہیں خر حروف جس سر میں نہیں ہے سر سودائے مدینہ
خورشید کے با حی کا اسے چاند بنا ذرّہ جو چمکتا ہے بصحرائے مدینہ
اللہ دے ان آنکھوں کی یہ ہے عین تمنا دکھلائے مدینہ ہمیں دکھلائے مدینہ
کاؔفی یہ تمنا دل ہے کہ دم مرگ گر آہ جو کہوں تو کہوں ہائے مدینہ