مدینے پہ دل فِدا ہو رہا ہے یہ رحمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
ترا نام لےلے کے ہم جی رہے ہیں عبادت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
گنہ گار پر وہ کرم کر رہے ہیں بِھکاری کا اپنے بھرم رکھ رہے ہیں
شفیعِ دو عالم کی ہم عاصیوں پر عنایت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
گیا جو بھی منگتا تہی دست در پر دو عالم کی نعمت وہ آیا ہے لے کر
بدلتے ہیں طیبہ میں سب کے مقدر سخاوت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
تصدق کروں جان قرباں کروں دل، وہی ہیں مری آرزؤں کا حاصل
جسے اہل دِل کہہ رہے ہیں مدینہ وہ جنت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
کسی شے کی مجھ کو ضرورت نہیں ہے یہ ہے سیر چشمی قناعت نہیں ہے
مرے دل میں ہے جا گزیں ان کی الفت یہ دولت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
بلا لو گنہ گار خاؔلد کو در پر کرم ہو کرم ہو کرم بندہ پَرور!
مرے واسطے یہ جُدائی کا اک پل قیامت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے