تضمین بر نعتِ استاد زمن حضرتِ علامہ حسن رضا خاں حسؔن بریلوی برادرِ خورد اعلٰحضرت فاضلِ بریلوی قدس سرّہ و تلمیذِ بلبلِ ہند، دبیر الدولہ فصیح الملک جناب داغؔ دہلوی مرحوم
تضمین
مدینے میں ہیں شہر یارِ مدینہ ہے رضواں بجا افتخارِ مدینہ
نگاہوں میں ہے ہیچ ہر پھول بالکل ہمیں دشتِ طیبہ بہارِ بریں ہے
عجب ہے مقدر دلِ ناتواں کا ادب سے ہے سرخم جہاں آسماں کا
بس اُڑکر سوئے رحمت آباد جائے یہ ذرّہ بھی تاروں میں ہو جائے شامِل
کھلیں پھول ہستی کے گلشن میں یارب لگی تھی جو کل دشتِ ایمن میں یارب
رُخِ گل پہ جب تازگی دیکھتا ہوں کلی خندہ زن جب کوئی دیکھتا ہوں
بہارِ جناں آج مجھ پر فدا ہے زمیں پر مزہ خلد کا آرہا ہے
سیہ خانہ ہو طُور ان کی ضیا سے منورّ ہوں اے کاش سب داغ دل کے
مِلا طور موسٰے کو اَوجِ مکرّم اُڑا کر دَنیٰ پر تقرب کا پرچم
ہے فردوس بھی ایک حصہ یہاں کا غلامِ کرم ہیں ملائک بھی ان کے
ذرا دیکھے ان کا مقدّر تو کوئی بربِّ مدینہ مقدّس سمجھ کر
پئے غوثِ اعظم، طفیل رضا دے مجھے مدحِ محبوب کا یہ صلہ دے
نہ کیوں ناز ہو اختؔرِ بے نوا کو جو بے مانگے دیتے ہیں شاہ و گدا کو
نعت
عجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہ کہ سب جنتیں ہیں نثارِ مدینہ
مبارک رہے عندلیبو تمہیں گل ہمیں گل سے بہتر ہیں خارِ مدینہ
بنا شہ نشیں خسروِ دو جہاں کا بیاں کیا ہو عزّو وقارِ مدینہ
مِری خاک یارب نہ برباد جائے پسِ مرگ کر دے غبارِ مدینہ
کبھی تو معاصی کے خرمن میں یارب لگے آتشِ لالہ زارِ مدینہ
رگِ گل کی جب ناز کی دیکھتا ہوں مجھے یاد آتے ہیں خارِ مدینہ
جدھر دیکھئے باغِ جنت کِھلا ہے نظر میں ہیں نقش و نگارِ مدینہ
رہیں ان کے جلوے، بسیں ان کے جلوے مِرا دل بنے یادگارِ مدینہ
بنا آسماں منزلِ ابنِ مریم گئے لامکاں تاجدارِ مدینہ
دو عالم میں بٹتا ہے صدقہ یہاں کا ہمیں اِک نہیں ریزہ خوارِ مدینہ
ملائک لگاتے ہیں آنکھوں میں اپنی شب و روز خاکِ مزارِ مدینہ
مرادِ دلِ بلبلِ بے نوا دے خدایا دکھا دے بہارِ مدینہ
شرف جن سے حاصل ہوا انبیاء کو وہی ہیں حسؔن افتخارِ مدینہ