مدینہ سامنے ہے بس ابھی پہنچا میں دم بھر میں تجسس کروٹیں کیوں لے رہا ہے قلبِ مضطر میں
مجھے پہنچا گیا ذوقِ طلب دربارِ سرور ﷺ میں مسرت کلبلا اٹھی نصیبِ دیدۂ تر میں
اُنھیں قسمت نے ان کی رفعتِ افلاک بخشی ہے گرے جو اشک آنکھوں سے مِری ہجرِ پیمبرﷺ میں
گنہگاروں کے سر پر سایہ ہے جب اُن کی رحمت کا سوا نیزے پر آ کر شمس کیا کرلے گا محشر میں
میرے بختِ سیاہ کو تو اگر چاہے بدل ڈالے تِری رحمت کو کافی دخل حاصل ہے مقدر میں
مدد اے ہادیِ اُمّت، نوائے بے نوایاں! سن چراغِ بے کسی تھرا رہا ہے بادِ صر صر میں
مِری ہر آرزو کا ماحصل، تحسینؔ! بس یہ ہے کسی صورت پہنچ جاؤں میں دربارِ پیمبرﷺ میں