تم نقشِ تمنّائے قلمدانِ رضا ہو برکات کا سورج ہو بریلی کی ضیا ہو
جب خالق ِ کونین ہی خود مدح سرا ہو ’’نعتِ شہِ کونین کا حق کس سے ادا ہو‘‘
ہر آن پہ ہو جب کہ مدارج میں ترقی ’’نعتِ شہ کونین کا حق کس سے ادا ہو‘‘
جبرئیل بھی بے مثلی پہ جب مہر لگائیں ’’نعتِ شہ کونین کا حق کس سے ادا ہو‘‘
فردوس میں جب جب بھی ہوئی نعت کی محفل آقا نے کہا اہلِ بریلی کا بھلا ہو
کیوں اپنی گلی میں وہ روا دارِ صدا ہو بن مانگے جو ہر آن میں مصروفِ عطا ہو
اک آن میں ارؔشد کی بھی تقدیر سنور جائے گر دستِ کرم اُن کا مِری سمت اٹھا ہو