محشر میں قُربِ داورِ محشر ملا مجھے ایسا پیمبروں کا پیمبر ملا مجھے
اللہ کو سُنانے لگا نعتِ مصطفےٰ جب سایہء رسول کا منبر ملا مجھے
کِھلتی، مہکتی، بھیگتی راتوں کے موڑ پر وہ حجرہء درود میں اکثر ملا مجھے
میں وادیء حرم تک اُسے ڈھونڈنے گیا آواز دی تو اپنے ہی اندر ملا مجھے
قدموں میں مصطفےٰ کے رہا، جتنے دن رہا پردیس میں بھی کتنا حسیں گھر ملا مجھے
دیکھا جو غرق ہو کے محمد کی ذات میں دونوں جہاں کا مرکز و محور ملا مجھے
مانگے تھے چند پُھول ، بہاریں عطا ہُوئیں جو کچھ ملا ، بساط سے بڑھ کر ملا مجھے
اِک صبح سی ٹھہر گئی میرے وجود میں جس دن سے اُن کا عشق مظفر ملا مجھے
کلام: مظفر وارثی