مجھ کو تڑپاتا ہے بے حد اَب مدینے کا فراق ہر سحر، ہر شام، روز و شب، مدینے کا فراق
معنی پرداز ہے افسوس بے بال و پری ورنہ مرغِ دل اُٹھاتا کب مدینے کا فراق
آہ تڑپاتا ہے شکلِ طائرِ بے بال و پر شعلہ زن ہوتا ہے دل میں جب مدینےکا فراق
یَا غِیَاثَ الْمُسْتَغِیْثِیں، رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیں! ہو مُبَدَّل وصل سے، یا رب! مدینے کا فراق
گرچہ ہوں اکثر غم و رنج والم کا مبتلا ہے مگر ہر درد سے اغلب مدینے کا فراق
یا الٰہی! زندگی میں ہے جو یہ سینے کا داغ گور میں بھی ہو چراغِ شب مدینے کا فراق
کر مِری مشکل کو آساں، اے کریمِ کارساز! ہے بلائے جان کافؔی اب مدینے کا فراق