مجرم ہیں شہا! دے گا ہمیں کون اماں اور برگشۃ نصیبوں کا ٹھکانہ ہے کہاں اور
زاہد! تِری دنیا ہے الگ میرا جہاں اور جنت کا سماں اور ہے طیبہ کا سماں اور
گو پردۂ کثرت رُخِ روشن پہ ہے لیکن وحدت کی تجلّی ہوئی جاتی ہے عیاں اور
سجدے ہیں میسّر جنہیں طیبہ کی زمیں پر اُن عشق کے بندوں کی جبیں کا ہے نشاں اور
اے دامنِ محبوبِﷺ مدینہ تِرے صَدقے مِلتی نہ قیامت میں کہیں ہم کو اماں اور
گو دِل کو سکوں ہجرِ مدینہ میں ہے لیکن جل بجھتی ہے جب شمع تو اٹھتا ہے دھواں اور
ہے بزمِ سخن کیف میں ڈوبی ہوئی اختؔر اِک نعت پھڑکتی ہوئی اے زمزمہ خواں اور