لحد میں عشقِ رُخ شہ کا داغ لے کے چلے اندھیری رات سُنی تھی چراغ لے کے چلے
ترے غلاموں کا نقشِ قدم ہے راہِ خدا وہ کیا بہک سکے جو یہ سراغ لے کے چلے
جنان بنےگی محبّانِ چار یار کی قبر جو اپنے سینہ میں یہ چار باغ لے کے چلے
گیے، زیارتِ در کی، صدر آہ واپس آئے نظر کے اشک پیچھے دل کا داغ لے کے چلے
مدینہ جانِ جنان وجہاں ہے وہ سن لیں جنہیں جنون جناں سوئے زاغ لے کے چلے
ترے سحاب سخن سے نہ نم کہ نم سے بھی کم بلیغ بہر بلاغت بلاغ لے کے چلے
حضور طیبہ سے بھی کوئی کام بڑھ کر ہے کہ جھوٹےحیلۂ مکر و فراغ لے کے چلے
تمہارے وصف جمال و کمال میں جبریل محال ہے کہ مجال و مساغ لے کے چلے
گلہ نہیں ہے مُرید رشید شیطاں سے کہ اس کے وسعت علمی کا لاغ لے کے چلے
ہر ایک اپنےبڑے کی بڑائی کرتا ہے ہر ایک مغجچہ مغ کا ایاغ لے کے چلے
مگر خدا پہ جو دھبّہ وروغ کا تھوپا یہ کس لعیں کی غلامی کا داغ لے کے چلے
وقوع کذب کے معنی دُرست اور قدوس ہیے کی پھوٹے عجب سبز باغ لے کے چلے
جہاں میں کوئی بھی کافر سا کافر ایسا ہے کہ اپنے رب پہ سفاہت کا داغ لے کے چلے
پڑی ہے اندھے کو عادت کہ شور بے ہی سے کھائے بیڑ ہاتھ نہ آئی تو زاغ لے کے چلے
خبیث بہر خبیثہ خبیثہ بہر خبیث کہ ساتھ جنس کو بازو وکلاغ لے کے چلے
جو دین کوؤں کو دے بیٹھے ان کو یکساں ہے کلاغ لے کے چلے یا الاغ لے کے چلے
رضؔا کسی سگِ طیبہ کے پاؤں بھی چومے تم اور آہ کہ اتنا دماغ لے کے چلے
حدائقِ بخشش