قصیدہ غوثیہ شریف کے چند اشعار پر برائے حصولِ برکت کاوشِ تضمین
فضائے میکدہ کرکے نرالی مِرے ساقی نے بخشی خوش معالی اٹھائی میں نے جب اپنی پیالی
“سَقانِی الحُبُّ کأساتِ الوصالٖ فَقُلتُ لِخَمرَتی نَحوِی تَعالٖ”
مِلے عشقِ و ولا کے جام ہر سُو برائے تہنیت پھیلائے بازو مسرت سے لگا کر نعرہ ھُو
“فَقُلْتُ لِسَآئِرِ الْاَقْطَابِ لُمُّوْا بِحَالِیِْ وَادْخُلُوْ اَنتُمْ رِجَالِ”
بھرا ہے معرفت سے میرا دامن عطائے رب سے پائی چشمِ روشن وہ دریا ہوں کہ صحرا ہوں کہ گلشن
“نَظرتُ اِلٰی بِلادِ اللہ جَمعاً کَخَردَلَةٍ عَلٰی حُکمِ اتِّصالٖ”
مجھے رب نے شراب اِنشراح دی کہ جس نے دونوں عالم میں فلاح دی جبھی میں نے صدائے ارتباح دی
“اَنَا فِیْ حَضْرَتِ التَّقْرِیْبِ وَحْدِی یُصَرّفُنِیْ وَحَسَبِیْ ذُوالْجَلَالِ”
پئے شاہِ نجف اللہ رَبّی ہو پورا ہر ہدف اللہ رَبّی بڑھو میری طرف اللہ رَبّی
“مُریدی لاتَخَف اللہ رَبّی عَطانِی رِفعَةً نِلتُ المَنالٖ”
رَفَعنا سے مجھے حاصل ہے نسبت ازل سے بج رہی ہے میری نوبت ہے نوری انجمن میں میری مدحت
“طَبولِی فِی السّمآء وَالارضُ دُقّت وَشَاؤُسُ السَّعادَةِ قَد بَدالی”
سلامی دیں مجھے سب رات اور دن بشر ہو یا بھلے پھر ہو کوئی جِن کوئی رتبہ نہ پا سکتا مِرے بِن
“مَقامُکُمُ العُلٰی جَمعًا وّلٰکِن مَقامِی فَوقَکُم مَا زَالَ عالٖ”
شہنشاہی مری سب پر معین ہیں سارے اولیا دل، میں ہوں دھڑکن میں جاں ہوں اور تمام اقطاب ہیں تن
“وَوَلَّانِیْ عَلَی الْا َ قْطَابِ جَمْعًا فَحُکْمِیْ نَافِذ” فِیْ کُلّ ِ حَالِ”
بلندی ایسی گردوں نے نہ پائی کسے حاصل ہوئی ہے شان ایسی یقیناً یہ عنایت ہے خدا کی
“وَکُلُّ وَلِی لَہٗ قَدَمی وَاِنّی عَلٰی قَدَمِ النَّبی بَدرِ الکَمالٖ”
خدا کا فضل ہے یہ سرفرازی ہے دم سے جن کے شانِ امتیازی وہ مدنی صاحبِ رزم و مغازی
“نَبّیٌ ہَاشمی مَکّی حِجَازی ھُوَ جَدّی بِہِ نِلتُ المَوَالٖ”
مجھے حاصل نہ کیوں ہو نیک نامی مجھے اقطابِ عالم دیں سلامی مجھے زیبا ہے یہ شیریں کلامی
“انا الحَسَنیُّ والمَخدَع مَقامِی وَاقدامی عَلٰی عُنُقِ الرجالٖ”
مُسلّم ہے جہاں میں عالی نسبی علیِ پاک سے نسبت ہے میری زہے قمست کہ ہوں ذاتِ نجیبی
“وعبدُالقادرِ المَشھُور اِسمی وَجَدّی صاحبُ العَینِ الکَمالٖ”
تضمین نگار: ابو المیزاب محمد اویس آبؔ رضوی