قافلہ جب کوئی طیبہ کو رواں ہوتا ہے
عشقِ نادار مرا محو فغاں ہوتا ہے
نور سرکار کا مخدود کہاں ہوتا ہے
سارے عالم پہ مدینے کاگماں ہوتا ہے
نام سرکار جب وردِ زباں ہوتا ہے
جہاں سرکار ہیں یہ دل بھی وہاں ہوتا ہے
آپ کا درد بھی کیا درد ہے اللہ غنی
حد سے بڑھ جائے اگر راحتِ جاں ہوتا ہے
یہ کریمی ہے کہ سرکار سمجھ لیتے ہیں
اپنا احوال بھلا کس سے بیاں ہوتا ہے
رحمتیں ہوتی ہیں لاریب اسی محفل پر
ذکر سرکار ِ دو عالم کا جہاں ہوتا ہے
ان کی دہلیز پہ سجدے جو گزارے جائیں
کعبہ شوق انہیں سجدوں کا نشان ہوتا ہے
سامنے ہوتا ہے قرآن مجسم کا جمال
جب بھی سرکار کی سیرت کا بیاں ہوتا ہے
ایسے اندازِ تکلم تصدق دل وجاں
جس کا ہر لفظ محبت کی اذاں ہوتا ہے
ہو کے رہتی ہے وہی بات جو کہہ دیتا ہے
ہر غلامِ شِہ دیں سیف زباں ہوتا ہے
آپ کا نام بھی کیا نام ہے اے صَلّی ِ علیٰ
بے امانوں کے لئے وجہ اماں ہوتا ہے
بند آنکھیں ہیں تصور ہے انہیں کا لیکن
دیکھنے والوں کو کچھ اور گماں ہوتا ہے
ہے کرم جس پہ غمِ عشق نبی کا خاؔلد
اس پہ ہستی کا ہر اک راز عیاں ہوتا ہے