جہاں میں تھا جہاں میں تھا
فضا پُر کیف کیسی تھی جہاں میں تھا جہاں میں تھا ہر اک شے نورو نوری تھی جہاں میں تھا جہاں میں تھا کھڑے تھے قدسیانِ عرش بھی جنت کے روضے پر زمیں میں کیف و مستی تھی جہاں میں تھا جہاں میں تھا مری پلکوں پہ موتی تھے نگاہوں میں وہ جالی تھی عجب سی درفَشانی تھی جہاں میں تھا جہاں میں تھا مراتن من چمک اٹھا ملی تھی روح کو لَمْعَت وہ کیسی ضوفشانی تھی جہاں میں تھا جہاں میں تھا قمر کو میں نے دیکھا ہے وہاں جھکتے ہوئے در پر ستاروں کی لڑی سی تھی جہاں میں تھا جہاں میں تھا گُنہ جھڑتے رہے میرے عجب رحمت کے جھونکے تھے ہوا میں شوخ خنکی تھی جہاں میں تھا جہاں میں تھا سناؤ قافلے والو تمہیں احساس کیسا تھا وہاں ہر سانس مہکی تھی جہاں میں تھا جہاں میں تھا بہر سو رقصِ بسمل تھا زمین کوئے جاناں پر ہر اک پر وجد و مستی تھی جہاں میں تھا جہاں میں تھا نہ کوئی فکرِ دنیا تھی نہ کوئی غم رہا حافؔظ میسّر ایسی ہستیﷺ تھی جہاں میں تھا جہاں میں تھا (۲۸ فروری ۲۰۱۶ء ۱۹ جمادی الاولیٰ ۱۴۳۷ھ)مدینہ منورہ