فرقت طیبہ کی وحشت دل سے جائے خیر سے
میں مدینے کو چلوں وہ دن پھر آئے خیر سے
دل میں حسرت کوئی باقی رہ نہ جائے خیر سے
راہِ طیبہ میں مجھے یوں موت آئے خیر سے
میرے دن پھر جائیں یا رب شب وہ آئے خیر سے
دل میں جب ماہِ مدینہ گھر بنائے خیر سے
رات میری دن بنے ان کی لقائے خیر سے
قبر میں جب ان کی طلعت جگمگائے خیر سے
ہیں غنی کے در پہ ہم بستر جمائے خیر سے
خیر کے طالب کہاں جائیں گے جائے خیر سے
وہ خرامِ ناز فرمائیں جو پائے خیر سے
کیا بیاں ہو زندگی وہ دل جو پائے خیر سے
مر کے بھی دل سے نہ جائے اُلفتِ باغِ نبی
خلد میں بھی باغِ جاناں یاد آئے خیر سے
رنج و غم ہوں بے نشاں آئے بہارِ بے خزاں
دل میں میرے باغِ جاناں کی ہوائے خیر سے
اس طرف بھی دو قدم جلوے خرامِ ناز کے
رہگذر میں ہم بھی ہیں آنکھیں بچھائے خیر سے
انتظار ان سے کہے ہے بزبان چشم نم
کب مدینہ میں چلوں کب تو بلائے خیر سے
شام تنہائی بنے رشک ہزاراں انجمن
یادِ جاناں دل میں یوں دھومیں مچائے خیر سے
فرقت طیبہ کے ہاتھوں جیتے جی مردہ ہوئے
موت یا رب ہم کو طیبہ میں جلائے خیر سے
ہو مجھے سیر گلستان مدینہ یوں نصیب
میں بہاروں میں چلوں خود کو گمائے خیر سے
زندہ باد اے آرزوئے باغ طیبہ زندہ باد
تیرے دم سے ہیں زمانے کے ستائے خیر سے
نجدیوں کی چیرہ دستی یا الہٰی تا بَکے
یہ بلائے نجدیہ طیبہ سے جائے خیر سے
جھانک لو آنکھوں میں ان کی حسرتِ طیبہ لئے
زائرِ طیبہ ضیائے طیبہ لائے خیر سے
ہے یہ طیبہ کا پیام اے طالب عیش دوام
جنتِ طیبہ میں آہستی مٹائے خیر سے
سنگِ در سے آملے طیبہ میں اب تو جاملے
آگئے در پہ تیرے ، تیرے بلائے خیر سے
گوش بر آواز ہوں قدسی بھی اس کے گیت پر
باغِ طیبہ میں جب اخترؔ گنگنائے خیر سے