فراق مصطفیٰﷺ میں جان و دل کی غیر حالت ہے جنوں آنکھیں دکھاتا ہے گریباں گیر وحشت ہے
دل بیتاب وہ شاید بلانے کو ہیں طیبہ میں ٹپکنا زخم کا تمہید فتحِ بابِ قسمت ہے
بلائیں لے رہا ہوں معصیت کوشی کی رہ رہ کر مرے عصیاں کی ظلمت آئینہ دار شفاعت ہے
کمال صنعت صانع عیاں ہے روئے تاباں سے کہ شکّر زا ملاحت ہے نمک آگیں صباحت ہے
سگانِ کوئے طیبہ سے گلے مِل مِل کے روتا ہوں مری دیوانگی واللہ صد رشک فراست ہے
اب ایسے میں بن آئی ہے گنہگارانِ اُمّت کی رضا جُو ہے محب، محبوب سر گرم شفاعت ہے
گزرتے ہیں خیالِ عارض و گیسو میں روز و شب مری ہر شامِ عسرت، ابتدائے صبحِ عشرت ہے
ذرا جھوٹے ہی کو تردامنو! تر آستیں کرلو بہانہ ڈھونڈتی بہر شفاعت ان کی رحمت ہے
تجلی پڑ رہی ہے من رانی قدرائی الحق کی مرا آئینۂ دل جلوہ گاہ نورِ وحدت ہے
کہاں تک کیجئے تفسیر سبحان الذی اسریٰ کہ آغوشِ دنیٰ میں مصطفیٰﷺ کا قصرِ رفعت ہے
تصور میں وہ آ آ کر لگی دل کی بجھاتے ہیں تکا کرتی ہے منہ جلوت مری خلوت وہ خلوت ہے
چھلکتی ہے یہاں جام و سبو سے لذتِ کوثر ولایت در حقیقت چاشنی گیر نبوت ہے
مری نظریں اڑا لائی ہیں کس کا جلوۂ رنگیں کہ چشم نامرادی سے ٹپکتا خون حسرت ہے
خلیؔل اب بے خودی کے ہاتھ ہے شرم و حیا میری کہ وہ آتے ہیں اور دل کو مچل جانےکی عادت ہے