غمِ عشق نبی میں کیف افزا چشم ِ پُر نم ہے
نمایاں آنسووں سے ہے خوشی کتنا حسین غم ہے
یہی عرفان ہے اپنا یہی ایمان رکھتے ہیں
کہ جس کا خلق ہے قرآں وہ قرآنِ مجسّم ہے
ہزار آلودۂ عصیاں سہی دامن مرا لیکن
شفیع المذنبیں ہیں رحمتِ عالم تو کیا غم ہے
خدا کو دیکھتے ہیں ان کا چہرہ دیکھنے والے
جمالِ مصطفی تنویر خلاق ِ دو عالم ہے
عروج ان کا علو ان کا خدا جانے کہا ں تک ہے
کہ جن کے آستانے پر جبیں ہر شرف خم ہے
نہیں دیکھیں گے منہ ہم نامرادی کا ہم ان کے ہیں
انہیں پر ناز کرتے ہیں یہی نسبت مکرم ہے
بقدر ظرف بھر دیتے ہیں جھولی ہر بھکاری کی،
نگاہ ِ رحمۃ للعالمیں بخشش کی محرم ہے
یہ انداز مسیحائی یہ فیضان ِ نظر دیکھو
مرے آقا کے بیماروں میں شامل ابن مریم ہے
ہیں جتنے انبیاء خاؔلد سبھی ارفع ہیں اعلیٰ ہیں
مرا آقا مرا مولا مگر سب سے مکرم ہے