عیاں ہے جسمِ انور سے دو طرفہ حسن، فطرت کا ملاحت سے صباحت کا صباحت سے ملاحت کا
شناسا کوئی عالم میں نہیں جس کی حقیقت کا محمدمصطفےٰﷺ وہ راز ہے شانِ ہُویَّت کا
سوادِ معصیت سے نور چمکا حق کی رحمت کا ستارہ ڈوب کر ابھرا، طلبگارِ شفاعت کا
خیال آیا تھا کچھ خلد بریں کی طیب و نزہت کا کہ نقشہ پھر گیا آنکھوں میں طیبہ کی نضارت کا
یہ دولت اصل سرمایہ ہے انساں کی کرامت کا غلامی شاہِ والا کی، شرف ہے آدمیت کا
بساطِ دہر میں، انگڑائیاں لیتی یہ رعنائی سمٹ جائے تو نقطہ ہے نبیﷺ کے حسن طلعت کا
یقیناً ہے یہ گیسوئے نبیﷺ کی جلوہ سامانی کہ چہرہ فق ہوا جاتا ہے خورشیدِ قیامت کا
شفاعت ڈھونڈ لائی، خود سیاہ کارانِ امت کو سہارا ڈوبتوں کو مل گیا اشکِ ندامت کا
وہ تیری بے نیازی، اور مری بخشش کا پروانہ خدایا یہ نتیجہ، اور مری رندانہ جرأت کا
مسرت کے دئیے روشن ہیں دلکے آبگینوں میں حرم میں اور ہی عالم ہے میری شامِ غربت کا
بحمداللہ سہارا مل گیا ہم بے سہاروں کو یہاں بھی ان کی رحمت کا وہاں بھی ان کی رحمت کا
بڑھو بادہ کشو! ساقی نے اذن عام بخشا ہے ’’گناہ گارو چلو مولیٰ نے در کھولا ہے رحمت کا‘‘
عجب کیا شانِ قدرت ہے کہ لہرائے قیامت میں لواء الحمد کے سائے میں جھنڈا قادریت کا
خلؔیؔل زار کا مدفن بنا آغوش طیبہ میں بال آخر سامنے آیا نوشتہ کلکِ قدرت کا