عظمت و توقیرِ شاہِ دو جہاںﷺ اسریٰ کی شب دیکھتے ہی رہ گئے کون و مکاں اسریٰ کی شب
ہے مقامِ مصطفےٰ ﷺ ایسے عیاں اسریٰ کی شب فرش تا عرشِ بریں ہیں وہ ﷺ رواں اسریٰ کی شب
آن بانِ وجہِ کاف و نون ﷺکا عالم نہ پوچھ خود سے نادم تھے مکان و لامکاں اسریٰ کی شب
آۓ تھے روح الامیں لے کر پیامِ لَم یَزَل اِس سفر میں آپ ﷺ کے تھے میزباں اسریٰ کی شب
یہ بتایا حق تعالیٰ نے کہ میں ”سبحان“ ہوں آسماں کی سمت ہے خاکی رواں اسریٰ کی شب
مسجدِ حُرمت سے اڑ کر یوں گئے اقصیٰ تلک قدرتِ کامل کے دیکھے سب نشاں اسریٰ کی شب
سُرعتِ بُرَّاق سے لرزیدہ تھے ماہ و نجوم سب کے سب سیَّارگان و کہکشاں اسریٰ کی شب
گرمٸیِ رفتار مثلِ نور تھی بُرَّاق کی وقت سمٹا مثلِ بحرِ بیکراں اسریٰ کی شب
مہر ماہ و مشتری و آسماں تھے دم بخود ثابت و سیَّار کا تھا امتحاں اسریٰ کی شب
انجم و پرویں تَحیَر میں رہے اس رات بھر کون ہے اتنا زیادہ ضوفشاں اسریٰ کی شب
کھل گیا بےگنبدِ چرخِ کہن تیرے ﷺ لیے قدسیوں کے بخت جاگے ہیں وہاں اسریٰ کی شب
عود و عنبر کی فلک پر ہر طرف پھیلی مہک سج گیا گردوں مثیلِ گلسِتاں اسریٰ کی شب
وصلِ محبوب و مُحب کی آن پہنچی ہے گھڑی ہٹ گٸے جو بھی تھے پردے درمیاں اسریٰ کی شب
فخرِ موجودات ﷺ پر نازاں ہیں سب جن و بشر مصطفےٰ ﷺ ہیں جب خدا کے میہماں اسریٰ کی شب
ورطہءِ حیرت میں اب تک ہے جہانِ ہست و بود ششدر و مبہوت ہے خلقِ جہاں اسریٰ کی شب
عقلِ ناقص کی دَھری ہی رہ گیئں سب منطقیں عشق کی اک جست میں تھا آسماں اسریٰ کی شب
نکتہ چینی کے لیے ملتا نہیں نقطہ انہیں خاک بر لب دیکھیے سب ناقداں اسریٰ کی شب
فاسقانِ دشت و صحرا تھے بلا شک نامراد اور اک صدیقؓ تھا بس کامراں اسریٰ کی شب
ہستٸیِ کامل کا ہے کتنا عجب یہ معجزہ ہوگئے مجھ پر معانی مہرباں اسریٰ کی شب
قالبِ ژرفِ تخیل میں ڈھلا ہر لفظ ہے خامہءِ خالد ہے شستہ اور رواں اسریٰ کی شب
محمد خالد خان