عالم میں کیا ہے جس کی کہ تجھ کو خبر نہیں ذرہ ہے کو نسا تری جس پر نظر نہیں
ارض و سما نہیں ہیں کہ شمس و قمر نہیں کس چیز پر حبیب خدا کا اثر نہیں
نجدی شقی خبیث لعیں کا یہ قول ہے مخلوق کی تو کیا انہیں اپنی خبر نہیں
قائل ہو علم غیب نبی کا وہ کیوں شقی مرتد کے دل میں حب نبی کا اثر نہیں
دنیا میں ہو ذلیل تو عقبیٰ میں خوار ہو جو خاک پائے حضرت خیر البشر نہیں
انوار کا درہ دہے بزم رسول میں منکر ہے بے بصر اسے آتا نظر نہیں
یہ علم غیب ہے کہ رسول کریم نے خبریں وہ دیں کہ جن کی کسی کو خبر نہیں
کہتے ہیں جبرئیل بہت میں نے کی تلاش تجھ سا جہان بھر میں کوئی تاجور نہیں
معراج میں خدا نے بلایا انہیں جہاں واللہ اس جگہ پہ کسی کا گزر نہیں
تقسیم کر رہا ہے تو عالم میں نعمتیں ظاہر میں گوکہ پاس ترے مال و زر نہیں
منگتا ہیں ہم رسول کے کیوں دربدر پھریں کیا ہم کو بھیک کے لیے مولیٰ کا در نہیں
بیشک رہِ مدینہ میں نجدی کو خوف ہے سنی کو ان کی راہ میں مطلق خطر نہیں
اللہ کے حبیب کا دامنِ ہے ہاتھ میں محشر کی سختیوں کا ہمیں کچھ خطر نہیں
سن کر جمیلِ قادری تیرا کلامِ نعت بھولیں گے تجھ کو طالب حق عمر بھر نہیں
قبالہ ٔ بخشش