ظہورِ اول، ظہورِ آخر، ظہورِ شمس و قمر سے پہلے انہی ﷺ کا چرچا تھا لامکاں میں ہجومِ شام و سحر سے پہلے
سخن کی گلیوں کی چاند راتیں انہی ﷺ کی آمد کی منتظر ہیں خیالِ نطق و بیاں کریں گے سجودِ ہر رہگذر سے پہلے
وہ ﷺ جانتے ہیں تڑپ رہا ہے غریب شاعر پسِ حوادث چراغِ رہ بھی ضرور دیں گے حضور ﷺ اذنِ سفر سے پہلے
وہ شہرِ دلکش ادب کی جا ہے، خدا کی رحمت کی انتہا ہے ہواؤ آنکھیں بچھا کے چلنا مرے نبی ﷺ کے نگر سے پہلے
بڑے ادب سے درود پڑھ کر سلام کہنا، ضرور کہنا دعاؤ آقا ﷺ کے در پہ جانا، حدودِ بابِ اثر سے پہلے
مرے نبی ﷺ کو بنا کے رحمت، خدا نے بھیجا ہے کل جہاں میں کرم کی کلیاں چٹک رہی ہیں، چمن میں شاخِ کرم سے پہلے
انہی ﷺ کے نقشِ قدم سے کیا کیا چراغ روشن ہیں شہرِ جاں میں ذرا یہ پوچھو تو ہمنشینو! کسی کے قلب و جگر سے پہلے
تمام منظر دھواں دھواں ہے، ہر ایک آنسو چراغِ جاں ہے ہو رقصِ رحمت مرے چمن میں، حضور ﷺ رقصِ شرر سے پہلے
جہان والو! بغور سن لو! مرے بھی آقا ﷺ ہیں شاہِ طیبہ سنیں گے فریاد بے کسوں کی، فغانِ خونِ جگر سے پہلے
ہے سامنے روضۂ مبارک مگر نگاہیں جھکی ہوئی ہیں نصابِ حُبِّ نبی ﷺ تو پڑھ لے، کہو تم اپنی نظر سے پہلے
غزل بھی لب پر درود لکھ کر، گلاب مدحت کے چن رہی ہے یہ بانجھ لفظوں کی زرد شاخیں، مہک اٹھیں گی گجر سے پہلے
یہ کہکشاں تو غبارِ رہ ہے، حضور ﷺ کی رفعتیں نہ پوچھو نصیب چمکے تھے عرش والو، ورودِ خیرالبشر ﷺ سے پہلے
صبا ابھی تک درِ نبی پر کھڑی ہے میری بیاض لے کر کلام میرا پہنچ چکا ہے، ریاضؔ مجھ بے ہنر سے پہلے
مری متاعِ ہنر یہی ہے، ریاضؔ زادِ سفر یہی ہے جو اشک جلتے ہیں میری آنکھوں کی چلمنوں میں سحر سے پہلے
ریاضؔ نامہ سیہ ہے اپنا مگر تمنا ہے عاصیوں کی عقیدتوں کے ہوں پھول دامن میں میرے حکمِ سفر سے پہلے
کلام ۔ ریاض حسین چودھری رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ