صبا یہ کیسی چلی آج دشت بطحا سے
امنگ شوق کی اٹھتی ہے قلب مردہ سے
نہ بات مجھ سے گلِ خلد کی کر اے زاہد
کہ میرا دل ہے نگار خارِ طیبہ سے
یہ بات مجھ سے مرے دل کی کہہ گیا زاہد
بہارِ خلد بریں ہے بہارِ طیبہ سے
یہ کس کے دم سے ملی جہاں کو تابانی
مہ و نجوم ہیں روشن منارِ طیبہ سے
فدائیوں کو یہ ضد کیا کہ پردہ اٹھ جائے
ہزار جلوے نمایاں حجابِ آقا سے
جو ہیں مریضِ محبت یہاں چلے آئیں
صدا یہ آتی ہے سن لو مزارِ مولیٰ سے
کنارا ہو گیا پیدا اسی جگہ فوراً
کبھی جو ہم نے پکارا میانِ دریا سے
نہ فیض اس محبت میں تو نے کچھ پایا
کنارا کیوں نہیں کرتا تو اہل دنیا سے
پس ممات نہ بدنام ہو ترا اخترؔ
الٰہی اس کو بچالینا طعنِ اعداء سے