شہنشاہِ دو عالم کا کرم ہے
مرے دل کو میسر اُن کا غم ہے
یہیں رہتے ہیں وہ جانِ بہاراں
یہ دنیا دل کی رشک صد ارم ہے
بھلا دعوے ہیں ان سے ہمسری کے
سر عرشِ بریں جن کا قدم ہے
یہ دربارِ نبی ہے جس کے آگے
نہ جانے عرشِ اعظم کب سے خم ہے
ترس کھائو میری تشنہ لبی پر
مری پیاس اور اک جام؟ کم ہے
دلِ بیتاب کو بہلائوں کیسے
بڑھے گی اور بے تابی ستم ہے
یہاں قابو میں رکھیے دل کو اخترؔ
یہ دربار شہنشاہِ امم ہے