top of page
Naat Academy Naat Lyrics Naat Channel-Naat-Lyrics-Islamic-Poetry-Naat-Education-Sufism.png

نعت کی خوشبو گھر گھر پھیلے

شبِ معراج کلام

محروم نہیں رہتے سوالی، شبِ معراج دامن کوئ رہتا نہیں خالی، شبِ معراج

جاں بخش،دل افروزہیں اِس رات کے منظر ہےنسبتِ سرکار سـے ، عالی شب معراج

اربابِ نظرنے، اِسےجس رخ سے بھی دیکھا اُس رخ سے نظر آئ مثالی، شبِ معراج

خِیرہ ہیں جسے دیکھ کے خورشید کی آنکھیں اعجاز میں ہے ایسی اُجالی شب معراج

بـے چاندکی اِس رات پہ ہر چاند فدا ہے رکھتی ہے وہ اوصافِ جمالی شب معراج

عاصی بھی یہاں مژدۂ جنت سے ہیں محظوظ ہـے نعمتِ فردوس کی تھالی شب معراج

آغوشِ”عَلَینَا” میں بدوں کو بھی سنبھالا سر کار نے یوں لاج بچالی شب معراج

لایا درِ مولی پہ ندامت کے جو آنسو اُس شخص نے تقدیر بنالی شب معراج

جتنے بھی گنہگار ہیں اعلان یہ سن لیں نیکوں میں بدوں کی ہے بَحالی شب معراج

مومن کے لیے باعثِ تسکین و مسرت منکِر کے لئے برقِ جلالی شب معراج

ہستی میں گُلِ مدحت سرکار سجاکر چَڑھ جاییے درجاتِ معالی شب معراج

معراج، حقیقت میں ہر اُس در کی ہوئ ہے پہنچے جہاں کونین کے والی شب معراج

ہے آج بھی روشن، مرے سرکار کا رستہ ہر نقش بنا ، نقشِ ہلالی شب معراج

دوری تھی ملاقات میں قوسین سے ادنی کیاخوب سجی بزمِ وِصالی شب معراج

جو طور پہ مانگا تھا یہاں آکے ملا ہے موسٰی نےسَنَد ، دید کی “پا ” لی شب معراج

ہم پربھی کُھلے وصلِ مدینہ کا کوئ باب ہوجائے پَرے ، ہجرکی جالی شب معراج

قربان ہوئے جاتے تھے وہ پائے نبی پر جبریل میں تھا جذبِ بلالی شب معراج

کیسے کوئ کرپائے بیاں اسکے کمالات ہـےدُور تر ، از حدّ خیالی ، شب معـراج

ممکن نہیں اُس وصل کی تمثیل فریدی ہے قربِ محبت میں نرالی شب معراج

فریدی صدیقی مصباحی

 

لا مکاں کا جو مکیں، ان کو تھا ہونا، سو ہوۓ مرحبا عرش نشیں، ان کو تھا ہونا، سو ہوۓ

اہتمام ان کے لیے ہی تو شبِ اسریٰ تھا حق تعالیٰ کے قریں، ان کو تھا ہونا، سو ہوۓ

مظہرِ حُسنِ خدا حُسنِ پیمبر ہی تو ہے ساری خلقت سے حسیں، ان کو تھا ہونا، سو ہوۓ

ان کے ہیں منبر و محراب، مساجد ان کی مالکِ خلدِ بریں، ان کو تھا ہونا، سو ہوۓ

پاسباں دینِ نبی کے تھے حسین ابنِ علی جاں نثارِ شہِ دیں، ان کو تھا ہونا، سو ہوۓ

آپ کا نور بنایا گیا اول اول سب رسولوں کا نگیں، ان کو تھا ہونا، سو ہوۓ

ہم پہ ہے فضلِ خدا ان کے تصدق حسنی قبلہء اہلِ یقیں، ان کو تھا ہونا، سو ہوۓ

حسنؔی سیِد

 

ﻋﺮﺵِ ﺍﻋﻈﻢ ﭘﮧ ﮔﺌﮯ ﺷﺎﮦِ ﺍُﻣﻢ ﺍٓﺝ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ ﻓﺮﻗﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺍ ﻭﺻﻞ ﺑﮩﻢ ﺍٓﺝ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ

ﺳﻮﺭﮦٔ ﻧﺠﻢ ﮐﯽ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺳﮯ ﻭﺍﺿﺢ ﯾﮧ ﮨﻮﺍ ﺣﻖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺷﮧ ﺩﯾﮟ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺍٓﺝ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ

ﺻﺮﻑ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﮯ ﮨﯽ ﻋﺮﺵِ ﺑﺮﯾﮟ ﺟﮭﻮﻡ ﺍُﭨّﮭﺎ ﺍٓﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﺷﮧ ﺩﯾﮟ ﮐﮯ ﻗﺪﻡ ﺍٓﺝ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ

ﺣﻖ ﻧﮯ ﺭﺿﻮﺍﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺍٓﮮ ﮔﺎ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻣﺮﺍ ﺧﻮﺏ ﺍٓﺭﺍﺳﺘﮧ ﮐﺮ ﺑﺎﻍِ ﺍﺭﻡ ﺍٓﺝ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ

ﻋﺮﺵ ﻭ ﮐﺮﺳﯽ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﺁﻗﺎ ﮐﮯ ﻗﺪﻡ ﻭﺟﺪ ﻣﯿﮟ ﺍٓﮔﺌﮯ ﺧﻮﺩ ﻟﻮﺡ ﻭ ﻗﻠﻢ ﺍٓﺝ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ

ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺴﺎﮞ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﮔﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺍٓﭖ ﭼﮭﻮﮌ ﺍٓﮮ ﺟﮩﺎﮞ ﻧﻘﺶِ ﻗﺪﻡ ﺍٓﺝ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ

ﺟﺐ ﮐﮧ ﺳﺮﮐﺎﺭِ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺟﺸﻦِ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﻣﻨﺎﺋﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﻢ ﺍٓﺝ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ

ﻣﺎﻧﮕﻨﺎ ﮨﻮ ﺟﻮ ، ﻭﺳﯿﻠﮯ ﺳﮯ ﻧﺒﯽ ﮐﮯ ﻣﺎﻧﮕﻮ ﺟﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﺍٓﯾﺎ ﮨﮯ ﺩﺭﯾﺎﮮ ﮐﺮﻡ ﺍٓﺝ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ

ﺑﺎﻟﯿﻘﯿﮟ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺷﮩﻨﺸﺎﮦِ ﺭﺳﻮﻻﮞ ﮐﺎ ﮐﺮﻡ ﺫﮐﺮِ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮐﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﻗﻢ ﺍٓﺝ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ

ﺍﮨﻞِ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﻧﮧ ﻏﺎﻓﻞ ﺑﯿﭩﮭﯿﮟ ﺫﮐﺮِ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮐﺮﯾﮟ ﻣﻞ ﮐﮯ ﺑﮩﻢ ﺍٓﺝ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ

ﺟﻦ ﮐﺎ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﭘﮧ ﺍﯾﻤﺎﮞ ﮨﮯ ﻣُﺸﺎﮨﺪؔ ﭘُﺨﺘﮧ ﺳﺮِ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﻭﮦ ﺧﻢ ﺍٓﺝ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ

ﻋﺮﺽ ﻧﻤﻮﺩﮦ: ﻣﺤﻤﺪ ﺣﺴﯿﻦ ﻣﺸﺎﮨﺪ ﺭﺿﻮﯼ

 

لیلةُ الاسریٰ کرم کی اُستواری واہ وا کِشتِ اُلفت کی انوکھی آبیاری واہ وا

رب نے بُلوایا ہے قُربِ خاص میں محبوب کو جا رہی ہے عرش پر ان کی سواری واہ وا

گُھل گئی خُوشبو فضا میں ان کے استقبال کو اِک قرینے سے چلی بادِ بہاری واہ وا

سیر ہے کون و مکاں کے مالک و مُختار کی کیا ملائک نے رہِ جنّت سنواری واہ وا

ہو رہے ہیں آج سب غِلماں نچھاور آپ پر جا رہی ہے آپ کے، ہر حُور واری واہ وا

اللہ اللہ عِزّ و شانِ نوشہء بزمِ دنیٰ جُھک گئی تعظیم کو مخلوق ساری واہ وا

مسجدِ اقصیٰ میں ہیں سارے پیمبر مُقتدی یہ سیادت، یہ علُو، یہ شہریاری واہ وا

بڑھ نہ پائے منزلِ سِدرہ سے آگے جبرئیل مُصطفیٰ کا ہے سفر جاری و ساری واہ وا

روزِ محشر ہو گی ظاہر رحمتوں کے رُوپ میں طالب و مطلوب کی وہ رازداری واہ وا

جی نہیں بھرتا کلیمُ اللہ کا، دیدار سے رُوئے شہ میں دیکھتے ہیں نُورِ باری واہ وا

واقعہ معراج کا عارف ہے کیسا دِل نشیں ایک اِک اِس رات کی ہے بات پیاری واہ وا

(مُحمد عارف قادری)

 

نور ہی نور کی ہرسو برسات ہے واہ کیا بات ہے کون دولھا بنا آج کی رات ہے واہ کیا بات ہے سید الانبیا کی سواری چلی سوئے عرش بریں ساتھ میں قدسیوں کی بھی بارات ہے واہ کیا بات ہے عرش وکرسی، فلک، سدرۃ المنتہٰی، وجدان پرچڑھا آج رب سے نبی کی ملاقات ہے واہ کیا بات ہے صرف ہم ہی نہیں سارا عالم کہے جان عالم تجھے عرش پر جلوہ فرما تری ذات ہے واہ کیا بات ہے پنج وقتہ نمازوں کا تحفہ ملا ، یہ نبی نے کہا میرے رب کی طرف سے یہ سوغات ہے واہ کیا بات ہے ارض طیبہ کے ذروں میں جو ہے چمک، بول اٹھے یہ ملک ان کے پائے مقدس کی خیرات ہے واہ کیا بات ہے جس جگہ رکھ دے دیوانہ ان کا قدم ، ہو جگہ محترم شہر ہے چاہے وہ کوئی دیہات ہے ، واہ کیا بات ہے یا نبی آپ سے کہہ رہا ہے گدا ، فارحِ بے نوا دینے والی بڑی آپ کی ذات ہے واہ کیا بات ہے

غلام ربانی فارح مظفرپوری

 

اللہ نے آقا کو بلایا شب معراچ بے پردہ جمال اپنا دکھایا شب معراج

جس راہ سے سرکار کی گزری تھی سواری وہ رستہ فرشتوں نے سجایا شب معراج

محبوب ترے صدقے میں امت تری بخشی مژدہ یہ شفاعت کا سنایا شب معراج

اقصی سےسوئے عرش سواری جو چلی تھی کونین پہ اک نور تھا چھایا شب معراج

موسی سے کہا تم نہ مجھے دیکھ سکو گے محبوب کو دیدار کرایا شب معراج

سرکار کے صدقے میں ہے براق کی رفتار اعزاز یہ براق نے پایا شب معراج

عزیزالدین خاکی ۔۔ کراچی ۔۔

 

مہکی مہکی فضا آج کی رات ہے رب سے ملنا ترا آج کی رات ہے لامکاں کے مکیں رب کے مہماں ہوئے مرحبا مرحبا آج کی رات ہے شب اسرا کی کیا خوب ہیں برکتیں فضل رب العلی آج کی رات ہے قدسیان فلک بولے ہو کے مگن شاہ دولھا بنا آج کی رات ہے مرحبا کہہ رہے تھے سبھی انبیاء جان کل انبیاء آج کی رات ہے قرب گر حسنی پانا ہے سرکار کا پڑھ لو صلی علی آج کی رات ہے

نور محمد حسنی قادری

 

کون عالم میں ہوا جلوہ نما اج کی رات نور ہر سمت ہے جو پھیلا ہوا آج کی رات

کس کی آمد ہے سرِ عرشِ عُلی آج کی رات رو بہ رو کون یہ خالق کے ہوا آج کی رات

صف بصف سارے نبی آئے نظر اقصی میں پہنچے جس وقت امامت کو شہا آج کی رات

ہر طرف سور ہے کیوں صلِ علی صلِ علی نور عالم پہ ہے کیوں چھایا ہوا آج کی رات

ذکرِ سرکار کا جلسہ ہے سجایا ہم نے کس قدر ہم پہ ہوا فضلِ خدا اج کی رات

کیا گزر تیرا ہوا آجگلی سے ان کی اتنا اتراتی ہے کیوں بادِ صبا آج کی رات

جسن معراج کا ہم کیوں نہ منائیں فیصل عرشِ اعظم پہ گئے شاہِ ھدی آج کی رات

فیصل قادری گنوری

 

بزم کونین سجی خلد سجا آج کی رات عرش پر جاتے ہیں محبوب خدا آج کی رات

نور سے ملنے گئے عرش پہ نوری پیکر دیکھ آئے ہیں نبی ذات خدا آج کی رات

عرش پہ روتے ہیں امت کیلئے شاہ ہدیٰ بخش امت کو میری بارِ الٰہ آج کی رات

مومنوں پڑھتے رہو وقت مقرر پہ نماز فضل رب سے یہ ہمیں تحفہ ملا آج کی رات

آکے جبریل نے سرکار دوعالم سے کہا چلیئے سرکار بلاتا ہے خدا آج کی رات

سج کے دروازے پہ آیا ہے براق انور لے کے جائے گا یہی عرش علیٰ آج کی رات

شہ ابرار کے صدقے میں خدا کر لے قبول میں نے طارؔق جو قصیدہ ہے لکھا آج کی رات

محمد طارق قادری مبارک پور اعظم گڑھ

 

طالبِ مصطفیٰﷺ آج کی رات ہے رونقِ منتہی آج کی رات ہے

حدِ قوسین و جبریل ششدر کھڑے روبرو معجزہ آج کی رات ہے

چوم کر میرےآقاﷺ کی نعلین کو عرش اعظم سجا آج کی رات ہے

مصطفیﷺآپ سے گفتگو کے لیے جلوہ گر خود خدا آج کی رات ہے

ہیں سجے سب فلک خوش ہوئے سب ملک شاہﷺ دولہا بنا آج کی رات ہے

بابِ کعبہ سے سوئے قدس اور جناں نور اک ہر جگہ آج کی رات ہے

ہم کو معراج طیبہ کی صورت ملے اپنی حارث دعا آج کی رات ہے

(((محمد علی حارث)))

 

سارا عالم سجا آج کی رات ہے نور جلوہ نما آج کی رات ہے

قدسیوں کی چلی آج بارات ہے شاہ دولھا بنا آج کی رات ہے

نور کی نور سے یہ ملاقات ہے کیسا رتبہ ملا آج کی رات ہے

سج گیا عرش اور ساعتیں رُک گئیں معجزہ ہو گیا آج کی رات ہے

اپنی امت کی خاطر پریشان ہوں مصطفی نے کہا آج کی رات ہے

چومے نعلین جب عرش نے آپکے ہو گیا خوشنما آج کی رات ہے

ان کے صدقے میں سب نعمتیں مل گئیں بخت روشن ہوا آج کی رات ہے

رحمتوں کے جو بادل تھے چھائے ہوئے کھل کے برسی گھٹا آج کی رات ہے

ناز تیری بھی قسمت چمک جائے گی یہ جو لکھی ثنا آج کی رات ہے صفیہ ناز صابری

 

نور کی نرم و نازک شعاؤں کا اک شامیانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تنا آج کی رات ہے جس کے سائے میں پرواز کرنے لگی رفعت ۔۔۔۔۔ مصطفی آج کی رات ہے

دل کے جذبات اشکوں میں ڈھلنے لگے بت گناہوں کے ۔۔۔۔۔۔ سارے پگھلنے لگے خواہشوں کے قدم ۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھ ملنے لگے کیا کرم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ خدا آج کی رات ہے

حکم خالق لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئے روح الامین یعنی وہ ! بزم سدرہ کے مسند نشین تیرے تلووں کو چومے اسی کی جبیں با ادب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصطفی آج کی رات ہے

کس قدر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‌‌۔۔ برق رفتار تھا وہ براق جس کی ٹھوکر کی ضد چرخِ نیلی رواق ختم تھا جس کے آگے ۔۔۔۔ ہر اک طمطراق وہ ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سواری بنا آج کی رات ہے

بیت اقصیٰ میں صف باندھے سب انبیاء منتظر تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ آجائیے مصطفی اور امامت کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کر دیجیئے حق ادا بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی التجا آج کی رات ہے

نور کے چشمے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہرا کے بہنے لگے سب ملک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خلعت نور پہنے لگے حور و غلماں بھی خوش ہو کے کہنے لگے آمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصطفی آج کی رات ہے

آئی جب ۔۔ سرحد سدرۃ المنتہیٰ سر جھکا کر یہ روح الامین کہا اذن آگے کا بس آپ کو مصطفی صرف رب سے ملا آج کی رات ہے

جرئت پائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ناز شہ کن فکاں کرگئی پار جب ۔۔۔۔۔ سرحد لامکاں وقت کا تھم گیا جیسے سیل رواں کیا عجب یہ سماں آج کی رات ہے

بن گئی خلوت خاص، ۔۔ وہ بزم ھو عبد و معبود میں جب ہوئی گفتگو وصل کی انتہا پر ۔۔۔۔۔۔۔ ہوئے روبرو مصطفی ۔۔ و ۔ خدا آج کی رات ہے

پہنچے جب بزم خلوت میں شاہ عرب لے کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دامان امید حسن طلب اپنے ماتھے کی آنکھوں سے دیدار رب مصطفی نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا آج کی رات ہے

لڑکھڑانے لگے ۔۔۔۔۔۔۔ پائے وہم و گماں دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔ انتہا قربتوں کی وہاں عبد و معبود کے بیچ پھر بھی جہاں فرق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قائم رہا آج کی رات ہے

خدمت دین کی نیک عادت رہے عمر ہم سب کی وقف عبادت رہے موت کے وقت ایماں سلامت رہے یا خدا ! ۔۔۔ یہ دعا آج کی رات ہے

سارے اہل مشائخ، ۔۔۔۔۔۔ سبھی اشرفی ایک اور نیک ۔۔۔۔۔ ہوجائیں مولا سبھی دل میں رکھے نہ آپس میں یہ دشمنی دل سے سب کی دعا آج کی رات ہے

حال، پرویز ! ۔۔۔ اپنا سناؤں میں کیا سنتے ہی ۔۔۔۔۔ ذکر معراج کی رات کا سر کے ہمراہ سجدے میں یہ دل مرا خود بخود جھک گیا آج کی رات ہے

پرویز احمدآبادی

 

نور میں ڈوبا تھا عالم باخدا معراج میں رب سے ملنے کو چلےجب مصطفٰی معراج میں

پائے اطہر چوم کر بولے یہ جبریل امیں رب ہے مشتاق لقا چلیے شہا معراج میں

مسجد اقصٰی میں حاضر ہیں تمامی انبیا اور امام الانبیا ہیں مصطفٰی معراج میں

عرش نے بوسے لیے ہیں آپ کے پیزار کے کس قدر اونچا ہے رتبہ آپ کا معراج میں

با خدا یہ عظمت ختم الرسل ہے مومنو! سارے نبیوں نے کہا ہے مرحبا معراج میں

“ادن منی “کی صدا آتی رہی پیہم وہاں قرب حق میں جب گئے تھے مصطفٰی معراج میں

اعظمی کاہے یہ ایماں اس میں کوئی شک نہیں رب نے بخشا آپ کو بے انتہا معراج میں

امتیاز احمد اعظمی مصباحی

 

خوب بارش ہوئی رحمت کی ہے برسات کی رات رخ شہ سے جو اٹھا پردہ حجابات کی رات

دافع رنج والم آمد بر کات کی رات مومنو! کے لیے ہے آمد سوغات کی رات

مظہر ذات خدا سدرہ سے آگے جوبڑھے دیکھتے رہ گئے جبریل کما لات کی رات

دیکھ کر سید عالم کے رخ انور کو رب کے موسی کی بجھی پیاس ملاقات کی رات

شب معراج میں دولہا جو بنے شاہ امم حورو غلمان براتی بنے بارات کی رات

خوب تسبیح پڑھو ذکر نبی خوب کرو آج کی شب ہے عبادات و ریاضات کی رات

امت عاصی کو آزادی ملی دوزخ سے امت عاصی کی خاطر ہے کرامات کی رات

آج کی رات ہے سرکار دو عالم کے لیے رب تعالی کی عنایات وملاقات کی رات

عرش سے فرش تلک دھوم یہی ہے حاتم آج معراج ہے شہ کی؛ ہے مناجات کی رات

محمد حاتم رضوی

 

جان لیجے واقعہ معراج کا کرتا ہوں کچھ تذکرہ معراج کا وصف ہے سب سے جدا معراج کا ہے سفر سب سے بڑا معراج کا امتی کے واسطے صلوات کا تحفہ آقا کو ملا معراج کا آن واحد میں نبی نے طے کیا لمبا چوڑا راستہ معراج کا محفلِ ذکرِ نبی سجنے لگی جب مہینہ آ گیا معراج کا محوِ حیرت ہے زمانہ آج تک ایسا کچھ ہے فلسفہ معراج کا کیا بتاؤں ہے کہاں اور کس طرف “ہر طرف ہے تذکرہ معراج کا” انبیاء سارے بنے تھے مقتدی مقتدیٰ دولہا بنا معراج کا کر لیا فوراً یقیں صدیق نے جب سنے وہ واقعہ معراج کا شان کیسے ہو بیاں شؔاکر سے جب خود ہی ذاکر ہے خدا معراج کا

شاکر رضا نوری الہ آبادی

 

شہِ کون ومکاں فرشِ زمیں سے لا مکاں پہونچے جہاں پہونچا نہیں کوئی مرے آقا وہاں پہونچے

نبی الانبیا پہونچے وہ سب کے مہرباں پہونچے شبِ اسریٰ کےدولھایعنی رب کے میہماں پہونچے

تخیل کی رسائی بھی نہیں ہوسکتی ہے جس جا حبیبِ کبریا پہونچے شہِ کون و مکاں پہونچے

کھڑےتھےمسجدِاقصٰی میں سارے انبیاصف میں امامت کے لئے جس دم حرم کے پاسباں پہونچے

بحکمِ رب فرشتوں نے کیا آراستہ جنت جناں میں جب شبِ اسریٰ شفیعِ عاصیاں پہونچے

مسرت شادمانی میں ہراک فردِ بشر تھا جب لئے تحفہ نمازوں کا انیسِ بےکساں پہونچے

سمیٹے بال و پر جبریل بولے جائیے آقا یہ شانِ مصطفے ہی ہے جہاں چاہے وہاں پہونچے

بہت حیراں تھے جبریلِ امیں رفتار جب دیکھی ابھی آقا یہیں پر تھے خدا جانے کہاں پہونچے

نہ پہونچاہے نہ پہونچےگاوہاں تک کوئی رتبےمیں رسولِ محترم کونین کے والی جہاں پہونچے

مبارک بادیاں کیں پیش نبیوں اور رسولوں نے فلک پر جب امام المرسلیں اور جانِ جاں پہونچے

خوشی ہوتی ہے جیسے نعمت عظمٰی کے ملنے پر حضورِرب میں محبوب خدا یوں شادماں پہونچے

مبارک تھی وہ ساعت صدقہ لینے نور کا ان کے فلک کےچاند وسورج اورستارے کہکشاں پہونچے

گئے تھے طور پر موسیٰ تجلی دیکھنے رب کی فرازِ لا مکاں جب کہ خدا کے رازداں پہونچے

خدا نے کیا دیا اسریٰ کی شب محبوب کو اپنے وہاں تک نور کا ممکن نہیں وہم و گماں پہونچے

نورالہدیٰ نور مصباحی

 

محب کو خاص ہی محبوب سے محبت ہے کہ اس کے واسطے تخلیق کی یہ جنت ہے

ہوئی محب کی تو محبوب سے جو خلوت ہے کہ روبرو ہوئی اک دوسرے کی جلوت ہے

جو مانتا نہیں وہ نام کا مسلماں ہے نماز تو شب معراج کی حقیقت ہے

بنے تھے مسجد اقصی میں مقتدی سارے کہ انبیاء کی , تو کی آپ نے امامت ہے

حسین ان سا جہاں میں نہیں ہوا پیدا “یہ میرا حسن تخیل نہیں حقیقت ہے”

ہوا ہے عشق نبی کا ہمیں عطا دیکھو کہ رشک کرتے فرشتے بھی کیا عقیدت ہے

کروں نہ اپنے مقدر پہ ناز کیوں معصوم خدا کا شکر ہوئی آپ سے جو نسبت ہے

انعام الحق معصوم صابری

 

سارا عالم سجا آج کی رات ہے شاہ دولہا بنا آج کی رات ہے

جھلملاتے ستاروں نے خود ہی کہا کیسی رونق فضا آج کی رات ہے

دست بستہ کھڑے قدسی دیدار کو نور جلوہ نما آج کی رات ہے

ایسا لگتا گزرنے ہی والے ہیں وہ ٹھنڈی بادِ صبا آج کی رات ہے

سدرۃ المنتہیٰ عرش کرسی فلک سب منور ہوا آج کی رات ہے

پہنچے اقصیٰ سے جب لامکاں میں شہا رب کا جلوہ دکھا آج کی رات ہے

بن گئے رب کے مہماں شہِ انبیاء مرحبا مرحبا آج کی رات ہے

منتظر عرش نعلین کو چومنے چوم کر وہ سجا آج کی رات ہے

سال گزرے مگر ساعتیں تھم گئیں کیسا فضلِ خدا آج کی رات ہے

خود بلاکر کے تحفہ خدا نے دیا شان رب العلیٰ آج کی رات ہے

تیری رحمت کےصدقے شہِ انبیاء سب کو صدقہ ملا آج کی رات ہے

ماریہ چاہتی بخت میں روشنی مانگ لے تو دعا آج کی رات ہے

ماریہ امان امجدی قادری

 
164 views

Recent Posts

See All

شہر نبی ﷺ تیری گلیوں کا

Shehre Nabi ﷺ Teri Galiyo Ka Nakhsha Hi Kuch Aisa Hai Khuld Bhi Hai Mustaq Ziyarat Jalwa Hi Kuch Aisa Hai Dil Ko Sukun De Aankh Ko...

ملتا ہے تیرے در سے زمانے کو فیض عام

ملتا ہے تیرے در سے زمانے کو فیض عام دنیا کے بادشہ بھی اسی در کے ہیں غلام تیرا غلام وہ کہ جو شاہوں کو بھیک دے نسبت نے دے دیا ہے بلندی کا...

bottom of page