سنگِ درِ جاناں ہے اور ناصیہ فرسائی یارب میرے سجدوں کی ہوجائے پذیرائی
اُس جلوۂ زیبا کے اللہ رے شیدائی خود آپ تماشا ہیں خود آپ تماشائی
ہو راہ مدینہ میں یوں بادیہ پیمائی ہر گام پہ سجدوں کی ہو انجمن آرائی
رہتی ہے نگاہوں میں فردوس کی رعنائی خاک طیبہ ہے یا سرمۂ بینائی
بخشی ہے مسیحائی تم نے ہی مسیحا کو تم جانِ مسیحا ہو، تم جانِ مسیحائی
اخلاق و محاسن میں، افضال و محامد میں خالق نے تمہیں بخشی ہر شان میں یکتائی
بے اُن کے توسط کے، مانگے بھی نہیں ملتا بے ان کے توسّل کے پرسش ہے نہ شنوائی
ہاں ان کے گداؤں میں، شامل ہیں سلاطیں بھی ہان ان کے گداؤں پر قربان ہے دارائی
یاد شہِ کوثر میں، دل ہے یوں طرب آگیں جیسے کہیں بجتی ہو فردوس میں شہنائی
دہلیز پہ روضہ کی نذرانے میں جاں دیدی اللہ غنی میں اور یہ طُرَّۂ دانائی
رحمت نے خلیؔل ان کے دامن میں اماں بخشی جب بھی مرے عصیاں نے چاہی مری رسوائی