سن لو خدا کے واسطے اپنے گدا کی عرض یہ عرض ہے حضور بڑے بے نوا کی عرض
اُن کے گدا کے دَر پہ ہے یوں بادشاہ کی عرض جیسے ہو بادشاہ کے دَر پہ گدا کی عرض
عاجز نوازیوں پہ کرم ہے تُلا ہوا وہ دل لگا کے سنتے ہیں ہر بے نوا کی عرض
قربان اُن کے نام کے بے اُن کے نام کے مقبول ہو نہ خاصِ جنابِ خدا کی عرض
غم کی گھٹائیں چھائی ہیں مجھ تیرہ بخت پر اے مہر سن لے ذرّۂ بے دست و پا کی عرض
اے بے کسوں کے حامی و یاور سوا ترے کس کو غرض ہے کون سنے مبتلا کی عرض
اے کیمیاے دل میں ترے دَر کی خاک ہوں خاکِ دَر حضور سے ہے کیمیا کی عرض
اُلجھن سے دُور نور سے معمور کر مجھے اے زُلفِ پاک ہے یہ اَسیرِ بلا کی عرض
دُکھ میں رہے کوئی یہ گوارا نہیں اُنہیں مقبول کیوں نہ ہو دلِ درد آشنا کی عرض
کیوں طول دوں حضور یہ دیں یہ عطا کریں خود جانتے ہیں آپ مرے مدعا کی عرض
دَامن بھریں گے دولتِ فضلِ خدا سے ہم خالی کبھی گئی ہے حسنؔ مصطفےٰ کی عرض
کلام مولانا حسن رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ