سراپا وہ صَلِّ عَلٰی آپ کا تھا کہ ہر عضو حُسنِ تجلّی بنا تھا
حبیبِ خدا کا جمال مکرم سزاوارِ تحسینِ حمد و ثنا تھا
بہارِ لطافت میں بے مثل و ثانی گُلِ بے خزاں عارضِ مصطفیٰ تھا
مدوّر جو کہتے ہیں چہرے کا عالَم وہ تدویر سے بھی وراء الورا تھا
وہ صَلِّ عَلٰی گندمی رنگ اُن کا کہ عارض رُخِ عالمی نور کا تھا
چمکتا تھا کیا نورِ حُسنِ صباحت فروغِ ملاحت دمکتا ہوا تھا
مزیّن تھا پیراہنِ اعتدالی خوش اندام اندامِ خیرالورا تھا
وہ جسمِ مبارک کی روشن سیاہی کہ سر چشمۂ نور جس پر فدا تھا
وہ دنداں لبِ غیرتِ دُرِّ مکنوں وہ حُسنِ تبسم کا عالم نیا تھا
وہ بحرِ تبسّم میں موجِ لطافت کہ در یوزہ گر جس کا آب ِ بقا تھا
وہ حُسنِ ادا کس زباں سے ادا ہو تبسم میں اُن کے جو حُسنِ ادا تھا
کرے اُس شمائل کا کیا وصف، کافؔی سراپا سہر خوبیوں سے بھرا تھا