زمیں سے آسماں تک، آسماں سے لا مکاں پہنچے جہاں کوئی نہ پہنچا سرورِ عالم وہاں پہنچے
رُکےجبریل، لیکن ان کو جانا تھا وہاں پہنچے محمد مصطفے عرشِ علیٰ تک بے گماں پہنچے
شرف ہے بےنوائی، بارگاہِ شاہِ بطحا میں نشاں والوں سے پہلے در پہ بے نام و نشاں پہنچے
پکارا جب کسی نے “یامحمدمصطفے” کہ کر مدد کو اپنے فریادی کی شاہِ انس و جاں پہنچے
بہت بے چین ہُوں بس منتظر ہُوں باریابی کا الٰہی آستاں پر ان کے میری داستاں پہنچے
حبیب کبریا کی یاد میں خونِ جگر لے کر چلے دل سے تو پلکوں تک مرے اشکِ رواں پہنچے
یہ ان کے آستانِ پاک کا اک فیضِ ادنیٰ ہے توانا ہوکے واپس آئے جو بھی ناتواں پہنچے
مقامِ کبریا آگے ہے اِدراک و تخیل سے شبِ معراج یہ کس کو خبر ہے وہ کہاں پہنچے
نصیرؔ اب ایک ہی دُھن ہے کہ دیکھیں کب زیارت ہو دیارِ مصطفی میں کب ہمارا کارواں پہنچے
پیر سید نصیر الدین نصیر رحمتہ اللہ علیہ