زمانہ حج کا ہے جلوہ دیا ہے شاہدِ گل کو الٰہی طاقتِ پرواز دے پر ہائے بلبل کو
بہاریں آئیں جوبن پر گھرا ہے ابر رحمت کا لب مشتاق بھیگیں دے اجازت ساقیا مل کو
ملے لب سے وہ مشکیں مُہر والی دم میں دم آئے ٹپک سن کر ’’قُمِ‘‘ عیسیٰ کہوں مستی میں قلقل کو
مچل جاؤں سوالِ مدّعا پر تھام کر دامن بہکنے کا بہانہ پاؤں قصدِ بے تأمل کو
دُعا کر بختِ خفتہ جاگ ہنگامِ اجابت ہے ہٹایا صبحِ رخ سے شانے نے شب ہائے کاکُل کو
زبانِ فلسفی سے امن خرق والتیام اسرا پناہِ دورِ رحمت ہائے یک ساعت تسلسل کو
دو شنبہ مصطفیٰ کا جمعۂ آدم سے بہتر ہے سکھانا کیا لحاظِ حیثیت خوئے تأمل کو
وفورِ شانِ رحمت کے سبب جرأت ہے اے پیارے نہ رکھ بہرِ خُدا شرمندہ عرضِ بے تأمل کو
پریشانی میں نام ان کا دلِ صد چاک سے نکلا اجابت شانہ کرنے آئی گیسوئے توسّل کو
رؔضا نُہ سبزۂ گردوں ہیں کوتل جس کے موکب کے کوئی کیا لکھ سکے اس کی سواری کے تجمّل کو
حدائقِ بخشش