زباں پہ اس لیے صلِّ علیٰ بے اختیار آیا کہ دل میں نام پاک سیّدِ عالی وقار آیا
جہاں میں جس گھڑی وہ رحمتِ پروردگار آیا غریبی جی اُٹھی، لیجیے غریبوں کا وہ یار آیا
سلاطیں سر بسجدہ ہوں گے جس کے آستانے پر دو عالم کا وہ ملجا اور ماویٰ شہرِیار آیا
نہ میں دوزخ سے خائف ہوں نہ میں خواہاں ہوں جنّت کا مجھے تو مل گیا سب کچھ جب آقا کا دیار آیا
فدا لاکھوں خرد ایسے جنونِ ہوش پرور پر ادب سے سر بسجدہ جب کوئے یار آیا
جہنّم کی تپش سے سینئہ گستاخ بریاں ہے کہ اس کو یارسول اللہ سنتے ہی بخار آیا
جو اپنی معصیت کی لذّتوں میں مست و غافل تھا کھلی اُس وقت آنکھیں جس گھڑی روزِ شمار آیا
سرِ محشر عجب ہنگامئہ نفسی بپا دیکھا تلاشِ یار میں ہر اک نفس با حالِ زار آیا
سِوا اُن کے کِسے جراءت ہے، یااللہ کہنے کی جو آیا یارسول اللہ کی کرتا پُکار آیا
پریشاں تھا کہ زیرِ عرش سجدہ میں نظر آئے بڑی مشکل سے دل کی بے قراری کو قرار آیا
وہ مشکیں عنبریں گیسو رُخِ انور کے وہ جلوے انھی کے واسطے واللّیل آیا والنّھار آیا
مِری قسمت بھی کُھل جائے جو وہ محشر میں فرما دیں کہ یہ بُرہانؔ رضوی ایک میرا جانثار آیا