رسائی ہے مری اس آستاں تک
جہاں خم ہے جبین ِ آسماں تک
زمین و آسماں و لا مکاں تک
وہی آئے نظر دیکھا جہاں تک
کوئی حَد ہی نہیں ان کے کرم کی
کہوں کیا ان کی رحمت ہے کہاں تک
تعالی اللہ نسبت مصطفی کی
میں پہنچا خالقِ کون و مکاں تک
نوازا اس قدر ان کے کرم نے
نہ ہلنے دی کبھی میری زباں تک
حرم میں بھی نظر آیا مدینہ
کہاں کی بات جا پہنچی کہاں تک
فرشتو! یہ مری فہرست ِ عصیاں
نہ پہنچاؤ شفیع عاصیاں تک
میں اس منزل سے بھی گزرا ہوں خاؔلد
ملک ہمت نہیں کرتے جہاں تک