رحمت نہ کس طرح ہو گنہگار کی طرف رحمٰن خود ہے میرے طرفدار کی طرف
جانِ جناں ہے دشتِ مدینہ تری بہار بُلبل نہ جائے گی کبھی گلزار کی طرف
انکار کا وقوع تو کیا ہو کریم سے مائل ہوا نہ دل کبھی اِنکار کی طرف
جنت بھی لینے آئے تو چھوڑیں نہ یہ گلی منہ پھیر بیٹھیں ہم تری دیوار کی طرف
منہ اُس کا دیکھتی ہیں بہاریں بہشت کی جس کی نگاہ ہے ترے رُخسار کی طرف
جاں بخشیاں مسیح کو حیرت میں ڈالتیں چُپ بیٹھے دیکھتے تری رفتار کی طرف
محشر میں آفتاب اُدھر گرم اور اِدھر آنکھیں لگی ہیں دامنِ دلدار کی طرف
پھیلا ہوا ہے ہاتھ ترے دَر کے سامنے گردن جھکی ہوئی تری دیوار کی طرف
گو بے شمار جرم ہوں گو بے عدد گناہ کچھ غم نہیں جو تم ہو گنہگار کی طرف
یوں مجھ کو موت آئے تو کیا پوچھنا مرا میں خاک پر نگاہ دَرِ یار کی طرف
کعبے کے صدقے دل کی تمنا مگر یہ ہے مرنے کے وقت منہ ہو دَرِ یار کی طرف
دے جاتے ہیں مراد جہاں مانگیے وہاں منہ ہونا چاہیے درِ سرکار کی طرف
روکے گی حشر میں جو مجھے پا شکستگی دوڑیں گے ہاتھ دامنِ دلدار کی طرف
آہیں دلِ اسیر سے لب تک نہ آئی تھیں اور آپ دوڑے آئے گرفتار کی طرف
دیکھی جو بے کسی تو انہیں رحم آ گیا گھبرا کے ہو گئے وہ گنہگار کی طرف
بٹتی ہے بھیک دوڑتے پھرتے ہیں بے نوا دَر کی طرف کبھی کبھی دیوار کی طرف
عالم کے دل تو بھر گئے دولت سے کیا عجب گھر دوڑنے لگیں درِ سرکار کی طرف
آنکھیں جو بند ہوں تو مقدر کھلے حسنؔ جلوے خود آئیں طالبِ دیدار کی طرف
ذوقِ نعت