بنـدوں پہ خاص ابـرِ بـہـاراں پھر آگیا رحمت لیے ہوئے مہِ رمضاں پھر آگیا ہے جسکی تربیت سے دل و روح کا نکھار ملت کا وہ مــعـلمِ ذیشــاں پھـر آگیــا چشمِ طلب میں اشکِ ندامت سجائیں ہم لوگو ! ہمارے عفـو کا سـاماں پھر آگیا اعــلانِ مغـفـرت ہـے گـنہـگار کـے لئـے بخشش کے ساتھ ، قاصدِ رحمٰں پھر آگیا دل کے بجھے چراغ بھی جس سے چمک اٹھے ہم سب کے گھر وہ دَورِ چراغاں پھر آگیا جنت کےدر کُھلےہیں تو دوزخ ہوئ ہے بند مـژدہ ہو عاصیـو ! مہِ غُفـراں پھر آگیا سر سبز جس سےہوتا ہے صحرائے زندگی شکر خدا، وہ ابـرِ گُل افشاں پھر آگیا انسانیت نکھرتی ہے جس کے اجالـے میں صد مرحبا وہ مہرِ درخشاں پھر آگیا مائل ہے دل، تلاوت و ذکر و درود پر ہستی میں ذوقِ نو کا دبستـاں پھر آگیا ہم خوش نصیب ہیں کہ ملے ہم کو ایسے دن ماہ صیــام ، تـحـفـۂ یـزداں پھـر آگیا احسان اِس نے پہلے بھی ہم پر کئے بہت اس بار بھی یہ کرنے کو احساں پھر آگیا نفلوں پہ فرض ، فرض پہ ستر گُنا ثواب ہم میں سخاوتوں کا گلستاں پھر آگیا جو نعمتیں لُٹـاتا ہے ہر خاص و عام پر جود وسخا کےساتھ وہ مہماں پھر آگیا مہکے ہیں جس سے بندۂ مومن کے جسم و جاں باغِ جناں کا وہ گُلِ ریحاں پھر آگیا اُترا ہے اِس مہینے میں اللہ کا کلام چَمکانے ہم کو، جلوۂ قرآں پھر آگیا تو بھی فریدی اپنے گناہوں کا کر علاج خوش ہو کہ سارے درد کا درماں پھر آگیا
فریدی صدیقی مصباحی ، نوری مسجد، مسقط عمان