راہِ عرفاں سے جو ہم نادیدہ رو محرم نہیں مصطفیٰ ہے مسندِ ارشاد پر کچھ غم نہیں
ہوں مسلماں گرچہ ناقص ہی سہی اے کاملو! ماہیت پانی کی آخر یم سے نم میں کم نہیں
غنچے مَآ اَوْحٰی کے جو چٹکے دَنیٰ کے باغ میں بلبلِ سدرہ تک اُن کی بُو سے بھی محرم نہیں
اُس میں زم زم ہےکہ تھم تھم اس میں جم جم ہے کہ بیش کثرتِ کوثر میں زم زم کی طرح کم کم نہیں
پنجۂ مہرِ عرب ہے جس سے دریا بہہ گئے چشمۂ خورشید میں تو نام کو بھی نم نہیں
ایسا امّی کس لیے منّت کشِ استاد ہو کیا کفایت اُس کو اِقْرَأْ رَبُّکَ الْاَکْرَمْ نہیں
اوس مہرِ حشر پر پڑ جائے پیاسو تو سہی اُس گلِ خنداں کا رونا گریۂ شبنم نہیں
ہے انھیں کے دم قدم کی باغِ عالم میں بہار وہ نہ تھے عالَم نہ تھا گر وہ نہ ہوں عالَم نہیں
سایۂ دیوار و خاکِ در ہو یا رب اور رؔضا خواہشِ دیہیم قیصر شوقِ تختِ جم نہیں
(حدائقِ بخشش)