رات دن اُن کے کرم کے گیت ہم گاتے رہے
بے طلب بخشش ہوئی ہم بے سبب پاتے رہے
اپنی بد اعمالیوں پر ہم تو شرماتے رہے
اور کرم پر ہی کرم سرکار فرماتے رہے
یہ کرم بھی بارہا سرکار فرماتے رہے
نعت میں لکھتا رہا سرکار لکھواتے رہے
صاحب ِ معراج کی نسبت مدینہ بن گئی،
ہم تصور میں وہاں آتے رہے جاتے رہے
جب سے آغوش ِ کرم میں لے لیا سرکار نے
جس قدر طوفان اُٹھے مجھ کو راس آتے رہے
رات بھر جشنِ چراغاں ہی رہا اشکوں کی خیر
آپ کی یادوں میں ڈھل کر نور برساتے رہے
وہ مری فریاد سے پہلے مدد کو آگئے
اور ہونگے وہ جنہیں حالات تڑپاتے رہے
ان پہ اتراؤ کنارے سے لگائیں گے وہی
ڈوب جاؤ گے اگر غیروں پہ اتراتے رہے
کچھ نہ تھا مقصود بدار ِ محمد کے سوا
ان کے دیوانے ہر اک منصب کو ٹھکراتے رہے
ان کی نسبت نے سرِ ساحل مجھے پہنچا دیا
گو کئی طوفاں مری کشتی سے ٹکراتے رہے
رحمۃ ٍ لّلِعٰالمین کی شان ِ رحمت کے نثار
دشمنوں پر بھی کرم سرکار فرماتے رہے
ذکرِ محبوب خدا کا فیض ہے خاؔلد کہ ہم
نعت سے عشّاق کی محفل کو مہکاتے رہنے