اگر ذوقِ عمل کو آج امیرِ کارواں کرلیں بدل کر پھر وہی پہلی سی تقدیرِ جہاں کرلیں
وہ سنتے ہیں زمانہ سرگزشتِ غم سناتا ہے ذرا موقع جو مل جائے تو کچھ ہم بھی بیاں کرلیں
اِدھر آؤ بہت ممکن نشانِ راہ مل جائے یہ ہیں نقشِ قدم بڑھ کر تلاشِ کارواں کرلیں
لپٹ کر اُن کے دامن سے مچل کر اُن کے قدموں پر ہم اپنی پستیوں کو پھر حریفِ آسماں کرلیں
دیارِ پاک کے کانٹوں سے کر کے دوستی ہمدم ریاضِ خلد کے پھولوں کو اپنا راز داں کرلیں
نظر میں جذب ہیں رنگینیاں گلزارِ طیبہ کی جہاں چاہیں وہاں پیدا نیا باغِ جناں کر لیں
وُفورِ شوق میں مَل کر جبیں کو آستانے سے نشانِ سجدۂ توحید کو جنّت نشاں کرلیں
یہیں سے رحمتوں کا ساتھ ہوجائے اگر، تحسیؔں! کسیﷺ کے ذکر کو حرفِ اخیر داستاں کرلیں