ذرّے ذرّے کی آغوش میں نور ہے یہ مگر آشکارا مدینے میں ہے
سارا عالم تجلی بداماں سہی لیکن اک عالم آرا مدینے میں ہے
گر خوشی چاہیئے تو مدینے چلو زندگی چاہیئے تو مدینے چلو
زندگی کی بہاریں مدینے میں ہیں کیف سارے کا سارا مدینے میں ہے
کیف و مستی میں ڈوبی ہوئی رات ہے گوشے گوشے میں رحمت کی برسات ہے
مصطفے کے مدینے کی کیا بات ہے حاصل ہر نظارا مدینے میں ہے
درد جس کی توجہ کا محتاج ہے جس کی چوکھٹ پہ جھکنا تو معراج ہے
غمزدوں بیکسوں کی جسے لاج ہے ہاں وہ آقا دل آرا مدینے میں ہے
دل بھی صدقے کیا نذر کی جان بھی روح تسکین پائے تو پائے کہاں
دور رہ کر جئیں کس طرح ہم یہاں جب کہ سب کچھ ہمارا مدینے میں ہے
مر کزِ اہل ایماں نہ کیوں کر رہے ہر بلندی یہاں کیوں نہ سجدے کرے
کعبہ اس بات کا خود بھی ہے معترف کعبے والے کا پیارا مدینے میں ہے
نا امیدی سے تیرا نہیں واسطہ تو تو ہے قائل ِ رحمت ِ کبریا
خاؔلدِ بینوا باندھ رخت ِ سفر بیکسوں کا سہارا مدینے میں ہے