دو عالم میں روشن ہےاکا تمہارا ہوا لامکاں تک اجالا تمہارا
نہ کیوں گائے بلبل ترانہ تمہارا کہ پاتی ہے ہر گل میں جلوہ تمہارا
زمیں والے کیا جانیں رتبہ تمہارا ہے اونچا فلک سے پھر یرا تمہارا
پڑھا بے زبانوں نے کلمہ تمہارا ہے سنگ و شجر میں بھی چرچا تمہارا
چھڑائے گا غم سے اشارہ تمہارا اتارے گا پل سے سہارا تمہارا
تمہیں ہو جوابِ سوالاتِ محشر تمہیں کو پکارے گا بندہ تمہارا
فترضےٰ کی یہ پیاری پیاری صدا ہے کہ ہوگا قیامت میں چاہا تمہارا
مرے پاس بخشش کی مہری سند ہے یہ کہتا ہے خطِ شفیعا تمہارا
پھیریں کس لیے تشنہ کامانِ محشر ہے لبریز رحمت کا دریا تمہارا
بہت خؤش ہیں عشاق جب سے سنا ہے قیامت میں ہوگا نظارا تمہارا
نہیں ہے اگر زہد و طاعت تو کیا غم وسیلہ تو لایا ہوں مولےٰ تمہارا
ہو تم حاکم و فاتح باب رحمت کہ ہے وصف انا فتحنا تمہارا
عمل پوچھے جاتے ہیں سرکار آؤ کہیں ڈر نہ جائے نکما تمہارا
جو انبار عصیاں ہیں سر پر تو کیا غم بہا دے گا اِک دم میں اہلا تمہارا
ڈرے آفتابِ قیامت سے کیوں کر جو بندہ ہوا میرے آقا تمہارا
بنایا تمہیں حق نے مختار و حاکم وہ کیا ہے نہیں جس پہ قبضہ تمہارا
کیا حق نے بحر کمالات تم کو نہ پایا کسی نے کنارہ تمہارا
میسر کسی کو نہیں ایسی رفعت کہ جیسا ہوا پایہ بالا تمہارا
رفعنا کا جلوہ دکھانے کو حق نے لکھا عرش پر نامِ والا تمہارا
قبائل کے حصے کیے جب خدا نے کیا سب سے اعلیٰ قبیلہ تمہارا
اذانوں میں خطبوں میں شادی وغم میں غرض ذکر ہوتا ہے ہر جا تمہارا
یہ فرش زمیں ہے تمہاری ہی خاطر بنا ہے سما ء شامیانہ تمہارا
منور ہوا آسمانِ رسالت اجالا ہے ایسا دل آرا تمہارا
بھرے اسمیں اسرار و علمِ دو عالم کشادہ کیا حق نے سینہ تمہارا
بحکم خداتم ہو موجود ہر جا بظاہر ہے طیبہ ٹھکانا تمہارا
تمہاری صفت حق نے فرمائی شاہد ہر ایک جا ہے موجود جلوہ تمہارا
کسی جاہے طٰحٰہ و یٰس کہیں پر لقب ہے سراجامنیراً تمہارا
جسے حق کے دیدار کی آرزو ہو وہ دیکھے میری جان چہرہ تمہارا
خدا ہم کو بخشے وہ چشم خدا بیں رہے کچھ نہ پردہ ہمارا تمہارا
کیا تم کو نور مجسم خدا نے زمیں پر نہیں پڑتا سایہ تمہارا
کمالوں کا مخزن جمالوں کا گلشن خدا نے بنایا گھرانا تمہارا
دل پاک بیدار اور چشم خفتہ نرالا تھا عالم میں سونا تمہارا
خدا نے کیا اپنے پیارے سے وعدہ وہ پیارا ہمارا جو پیارا تمہارا
وہی ہے خداکی قسم بندۂ حق ہوا جو بھی دنیا میں بندہ تمہارا
صحابہ سے تقدیر والوں کے قرباں ہے پایا جنہوں نے زمانہ تمہارا
شبِ وصل میں ابنیا و ملک نے پڑھا آسمانوں پہ خطبہ تمہارا
گمی عقل کونین راز دنی میں سمجھ میں نہ آیا معمار تمہارا
مبدل ہوئے انبیاکے صحائف محرف نہ ہوگا صحیفہ تمہارا
ہوا کفر کا فور پھیلا اجالا قدم جب ہوا زیب دیناتمہارا
جو عبدالصنم تھے ہوئے بت شکن وہ سنا جب نبوت کا دعویٰ تمہارا
مقدر میں تھا جن کے ایمان لانا وہ فوراً بنا دل سے بندہ تمہارا
رضاعت کے ایام میں یہ حکومت کہ تھا قرصِ مہ ایک کھلونا تمہارا
شہ دیں تمہاری ولادت کے باعث ہے جمعہ سے افضل دوشنبہ تمہارا
بتوں سے کیا پاک قبلہ بنایا ہے ممنون و شاکر یہ کعبہ تمہارا
بھلا کون کعبہ کو کعبہ سمجھتا جو آقا نہ ہوتا مدینہ تمہارا
جمادات نے دی تمہاری شہادت پڑھا سنگریزوں نے کلمہ تمہارا
صدا دے رہا ہے حجر موم ہوکر مہ مہر کی جاں ہے تلوا تمہارا
تمہارے ہی سایہ میں پلتا ہے عالم ہے کونین کے سرپہ سایہ تمہارا
ازل سے ابد تک دو عالم پلیں گے مگر کم نہ ہوگا خزانہ تمہارا
خدا ہے تمہارا خدائی تمہاری یہ عرش و فلک سب علاقہ تمہارا
غریبو سوائے در مصطفیٰ کے کہیں بھی نہ ہوگا گزارا تمہارا
فقیرو بجز وائی بیکساں کے نہیں ہے کہیں بھی ٹھکانا تمہارا
گداؤں کی ہے بھیڑ جب سےسنا ہے کہ بابِ اجابت ہوا وا تمہارا
صدا دیتے آتے ہیں منگتا ہزاروں کہ داتا رہے بول بالا تمہارا
کوئی بھیج دو ابرِ رحمت کا ٹکڑا کہ ہم پر برس جائے جھالا تمہارا
عرب والے پھیرا ہماری طرف بھی ہےہر سمت رحمت کا دورا تمہارا
اسی وقت دھلجائیں عصیاں کے دفتر شہا جس پہ پڑجائے چھیٹا تمہارا
خدا نے بہت آستانے بنائے مگر اصل ہے آستانہ تمہارا
مطالب کا قبلہ ہے گر سبز گنبد مقاصد کا کعبہ ہے روضہ تمہارا
یہ ہے داب شاہی کہ رب العلا نے دلایا ملائک سے پہرہ تمہارا
سوائے درِ پاک کے میرے آقا بتاؤ کہاں جائے منگتا تمہارا
نہ بچتے عذابوں سے دنیا میں منکر جو ان کو ان ملتا وسیلہ تمہارا
کھدا ہے مرے دل کی انگشتری پر وہ نامِ خدا نامِ والا تمہارا
نکیرین کیا مجھ سے سختی کریں گے ہے آئینہ دل میں نقشہ تمہارا
خدا یا نکیرین مجھ سے یہ پوچھیں کہ پہنچا دیں طیبہ کو لاشہ تمہارا
تڑپ کر بصد شوق ان سے کہوں میں میں بے حد ہی ممنون ہوں گا تمہارا
دعا ہے کہ جب وقت ہوجا نکنی کا ہو دل میں احد لب پہ کلمہ تمہارا
خدا نے حیاتِ ابد اس کو بخشی اگر مر گیا کوئی شیدا تمہارا
دعا ہے کہ جب قبر میں مجھ کو رکھیں مدینے سے اٹھ جائے پردہ تمہارا
سوا ل ِنکیرین پرمیں لحد میں دکھا دونگا مولےٰ یہ طغرا تمہارا
دمِ نزع و قبر اور روز قیامت غرض ہر جگہ ہے سہارا تمہارا
گرے سارے منکر جہنم میں پل سے نہ پھسلا کوئی نام لیوا تمہارا
نہ حوروں کا طالب نہ کچھ فکر جنت دکھا دے خدا مجھ کو صحرا تمہارا
عجب نگہت جانفزا ہے تمہاری کوئی راہ بھٹکا نہ جو یا تمہارا
اسی سے ہوئی عنبر و مشک مشتق ہے خوشبو کا مصدر پسینہ تمہارا
جلیں منکر ان قیام وولادت رہے گا یہ چرچا ہمیشہ تمہارا
سنو منکرانِ قیام و محافل عجب رنگ کا ہے عقیدہ تمہارا
بتاتے ہو شرک اور ہوتے ہو شامل یہ ہے بےحیائی کا آنا تمہارا
جمیؔل اب تو خوش ہو ندا آرہی ہے کہ مقبول ہے یہ قصیدہ تمہارا
قبالٔہ بخشش