دل وہی دل ہے جو آقا تمہیں پہچان گیا ہے وہ مومن جو تمہیں جان گیا مان گیا
سر وہی سر ہے کہ جس سر میں ہے سودا تیرا ہے وہ دانا جو ترے قدموں پہ قربان گیا
ورفعنا لك ذکرك کا جسے درک نہ تھا لاکھ عالم ہو مگر دہر سے نادان گیا
والضحی والے کے جلوں پہ جو شیدانہ ہوا گو کہ عاقل تھا صد افسوں کہ انجان گیا
ان کی جس شخص نے اک ذرہ بھی گستاخی کی یہ سمجھ لو کہ اس انسان کا ایمان گیا
اس کے خاروں کے بہشتوں نے لئے ہیں بو سے جس بیاباں سے مرا سید و سُلطان گیا
خُوب برسائی مری آنکھوں نے ساون کی جھڑی آ کے طیبہ میں مرے سینے کا طوفان گیا
مصطفٰی نوری تہ مرقد انور پہونچے ہند سنسان ہوا صاحب عرفان گیا
شاہ بغداد کی خوشبو ملی شعروں میں ترے بدر عالم میں ترا راز نہاں جان گیا
حضرت علامہ بدر القادری علیہ الرحمہ