دلِ مشتاق کی ہے آرزو بس کہ اُن قدموں پہ دیجے جان تو بس
تڑپنا لوٹنا اس خاکِ در پر یہی حسرت، یہی ہے آرزو بس
ملے گر خاکِ صحرائے مدینہ دلِ صد چاک ہو جائے رفو بس
کسی ڈھب ہو رسائی اُس گلی تک یہی کوشش، یہی ہے جستجو بس
تمامی ہم صفیر منزل کو پہنچے فقط پہنچا نہ کافؔی آہ تو بس