دل تڑپنے لگا اشک بہنے لگے لب پہ نام ان کا بے اختیار آگیا
ہجر کی ظلمتیں جگمگانے لگیں سامنے مصطفی کا دیار آگیا
ان کے در سے جبیں آشنا ہوگئی عمر بھر کی قضا سب ادا ہوگئی
وہ قرارِ دل و جاں بہرحال ہیں بے قراری کو بھی اعتبار آگیا
جس پہ ان کا کرم ان کا احسان ہے وہ گدا دین و دنیا کا سلطان ہے
اس کے قدموں پہ کونین قربان ہے ان کے منگتوں میں جس کا شمار آگیا
کیف ساماں ہوئیں دل کی بے تابیاں ہر تڑپ بن گئی دل کی آرام جاں
پڑگئی جس پریشاں پہ ان کی نظر اس کے اجڑے چمن میں نکھار آگیا
جتنے طوفاں اٹھے سب کنارا بنے اشک پلکوں پہ آکر ستارا بنے
بے سہاروں نے جب بھی پکارا انہیں رحمتِ ربّ اکبر کو پیار آگیا
اشک دامن میں اپنے چھپائے ہوئے سرجھکائے ہوئے اور لجائے ہوئے
لاج رکھ لیجئے شافع عاصیاں بار عصیاں لئے شر مسار آگیا
سربلندی ملی سرفرازی ملی فکرِ عقبیٰ سے بھی بے نیازی ملی
آپ کے درپہ آئے تو شاہ امم ہاتھ کونین کا ہر وقار آگیا
وہ تصور میں آکر سمانے لگے میرا سویا مقدر جمگانے لگے
عشق ہی عشق کا خود صلہ بن گیا بے قراری بڑھی تو قرار آگیا
سر پہ دامان ِ لطف و کرم تن گیا کام خاؔلد کا بگڑا ہوا بن گیا
اک توجہ بھی جس کی ہے مشکل کشا وہ مدد کو مری بار بار آگیا