دل اس ہی کو کہتے ہیں جو ہو تیرا شیدائی اور آنکھ وہ ہی ہے جو ہو تیری تما شائی
کیوں جان نہ ہو قرباں صدقہ نہ ہو کیوں ایماں ایماں ملا تم سے اور تم سے ہی جاں پائی
خلقت کے وہ دولہا ہیں محفل یہ انہی کی ہے ہے انہی کہ دم سے یہ سب انجمن آرائی
یا شاہِ رُسل چشمے بر حالِ گدائے خود کزحالِ تباہ دے دانائی و بینائی
بے مثل خدا کا تُو بے مثل پیمبر ہے ظاہر تری ہستی سے اللہ کی یکتائی
آقاؤں کے آقا سے بندوں کو ہو کیا نسبت احمق ہے جو کہتا ہے آقا کو بڑا بھائی
سینہ میں جو آجاؤ بن آئے مرے دل کی سینہ تو مدینہ ہو دل اس کا ہو شیدائی
دل تو ہو خدا کا گھر سینہ ہو ترا مسکن پھر کعبہ و طیبہ کی پہلو میں ہو یک جائی
اس طرح سما مجھ میں ہو جاؤں میں گم تجھ میں پھر تو ہی تماشا ہو اور تو ہی تماشائی
اس سالکِؔ بیکس کی تم آبرو رکھ لینا محشر میں نہ ہو جائے آقا کہیں رسوائی