دربار نبی میں جھکتے ہی تابندہ جبیں ہوجاتی ہے
جب اُن کا کرم ہو جاتا ہے تقدیر حَسین ہو جاتی ہے
اس میں نہ عداوت مِلتی ہے ظلمت ہے نہ کینہ کیا کہنا
سرکار ِ مدینہ کی اُلفت جِس دِل میں مکیں ہوجاتی ہے
مختار ِ دو عالم کے در کی جس کو بھی گدائی مل جائے
اُس در کی قسم کونین اُس کے پھر زیر نگیں ہو جاتی ہے
وہ کیف مجھے ملتا ہے جہاں میں نام محمد لیتا ہوں
خود درد دَوا بن جاتا ہے تسکین وہیں ہو جاتی ہے
جس وقت تصور میں میرے وہ گنبد خِضرا ہوتا ہے
جلوؤں کی نوازش سے روشن دنیائے یقین ہو جاتی ہے
یہ عرش کی عزت سے پوچھو، افلاک کی رفعت سے پوچھو
رکھتے ہیں قدم سرکار جہاں کی شے وہ زمین ہو جاتی ہے
دیدارِ خدا کا حاصل ہے دیدار ِ محمد اے خاؔلد
جب سامنے وہ آجاتے ہیں معراج ِ مبین ہوجاتی ہے