درِ اقدس سے رحمت بانٹتے خیرُ البَشَر نکلے تو لینے بھیک ، دامن کھول کر شمس وقمر نکلے
زمیں چمکی ، فَضا مہکی ، گھٹا چھائ ، بہار آئ کریم آقا ، شہِ بطحا ، جہاں پہنچے ، جدھر نکلے
نبی نے چشمِ رحمت ڈال دی جب خُشک صَحرا پر اُگے پودے، سَجے پَتَّے، کِھلے غُنچے، ثَمَر نکلے
ہوئے جب مصطفیٰ کے دامنِ رحمت سے وابستہ نہ تھی جن کی کوئی اوقات، وہ بھی معتبر نکلے
شہِ دیں کا خیال آیا تو ہستی پر جمال آیا دلِ مُضطر ، ہُوا خوشتر ، اَلَم ٹوٹے ، ضَرَر نکلے
اندھیرے سے اجالے کا سفر ہے اِس تعلق میں جو تھے گمنام ، اُن کے در سے بن کر نامور نکلے
نظر اُن کی ، جدھر اُٹّھی ، بَلا بھاگی، شفا جاگی بُجھے شعلے ، بَسے جلوے، گُہَر برسے ، شَرَر نکلے
قدم خیر الاُمَم کے جس زمیں پر جلوہ آرا ہوں تو اُس کی خاک سے مہتاب جیسا کَرّ و فَر نکلے
پسینے کی مہک ایسی، کہ جس کے تَن سے چھٗو جائے تو خوشبوے نبی کا اُس کی نسلوں تک اثر نکلے
نگاہیں پھیر لیں آقا ، تو رستے سب بگڑ جائیں کرم کردیں تو دریاؤں میں بھی راہِ سفر نکلے
سَما کر سانس میں، احساس میں، دھڑکن میں، تن مَن میں نبی کی نعت قلب و جاں سے بس آٹھوں پہر نکلے
مدینے جا کے ، سب کچھ رہ گیا بس تَن چلا آیا بہت ہوشیار یہ ذہن و دل و جان و جگر نکلے
نظر آیا ہمیں اپنی دعاؤں کا نچوڑ اِس میں بدن سے روح جب نکلے ، نبی کے نام پر نکلے
ہمارے حال پر چشمِ کرم ہو یارسول اللہ مُصیبت کے اندھیروں سے مسرت کی سحر نکلے
اِشارہ کردیا جب مصطفیٰ نے حال کہنے کا فریدی ! بـے زباں کو گفتگو کے بال و پَر نکلے
از فریدی صدیقی مصباحی ، بارہ بنکوی مسقط عمان