داغِ فرقتِ طیبہ قلب مضمحل جاتا
کاش گنبد خضریٰ دیکھنے کو مل جاتا
دم مرا نکل جاتا ان کے آستانے پر
ان کے آستانے کی خاک میں میں مل جاتا
میرے دل سے دھل جاتا داغِ فرقت طیبہ
طیبہ میں فنا ہوکر طیبہ ہی میں مل جاتا
موت لے کے آجاتی زندگی مدینے میں
موت سے گلے مل کر زندگی میں مل جاتا
خلد زارِ طیبہ کا اس طرح سفر ہوتا
پیچھے پیچھے سر جاتا آگے آگے دل جاتا
دل پہ جب کرن پڑتی ان کے سبز گنبد کی
اس کی سبز رنگت سے باغ بن کے کھل جاتا
فرقت مدینہ نے وہ دیئے مجھے صدمے
کوہ پر اگر پڑتے کوہ بھی تو ہل جاتا
دل مرا بچھا ہوتا ان کی رہ گزاروں میں
ان کے نقشِ پا سے یوں مل کے مستقل جاتا
دل پہ وہ قدم رکھتے نقش پا یہ دل بنتا
یا تو خاک پا بن کر پا سے متصل جاتا
وہ خرام فرماتے میرے دیدہ و دل پر
دیدہ میں فدا کرتا صدقے میرا دل جاتا
چشم تر وہاں بہتی دل کا مدعا کہتی
آہ با ادب رہتی مونھ میرا سل جاتا
در پہ دل جھکا ہوتا اذن پاکے پھر بڑھتا
ہر گناہ یاد آتا دل خجِل خجِل جاتا
میرے دل میں بس جاتا جلوہ زار طیبہ کا
داغِ فرقت طیبہ پھول بن کے کھل جاتا
ان کے در پہ اخترؔ کی حسرتیں ہوئیں پوری
سائل درِ اقدس کیسے منفعل جاتا