خلد میں لاؤں کہاں سے تجھ کو گلزارِ حرم آہ اے ولولۂ گل و خارِ حرم
اللہ اللہ یہ ہے رفعتِ دربارِ حرم کہ ہیں جبریل امیں تابع سرکارِ حرم
یاد کوثر میں تڑپتے ہیں بلانوش ترے ساقیا اب تو پلادے مئے گلنارِ حرم
سچ تو یہ ہے کہ وہ آغوشِ کرم میں پہنچا جس کو آغوش میں لے سایۂ دیوارِ حرم
لذت آبلہ پائی کو بڑھا دیتے ہیں مرہمِ زخمِ جگر سے ہیں سوا خارِ حرم
سارے سامان ہیں عشاق کی تسکیں کے لئے ہے ارم میں بھی وہی رونق بازارِ حرم
زاہدا جوشِ جنوں خیر سے لایا ہے یہاں اب کہاں چھوڑ کے جائیں در و دیوارِ حرم
تو نے جی بھر کے زیارت کے مزے لوٹے ہیں آتجھے دل میں بساؤں سگِ زوّار حرم
کُنجِ مرقد میں ترے دم سے چراغاں ہوگا مرحبا گریۂ تنہائی بیمارِ حرم
آبرو پائی سگِ طیبہ کے صدقہ میں خلیؔل ہے بڑی چیز قدمبوسئ زوّارِ حرم