خدائے پاک بھی خود جن پہ بھیجتا ہے درود
وہ ایک ذات ہے سب کی نجات کی ضامن
گنہ گار و سند ہے یہی رہائی کی۔۔
یقیں کے ساتھ محمد کا تھام لو دامن
خود ہی تمہید بنے عشق کے افسانے کی
آبرودیکھئے سرکار کے دیوانے کی
اٹھ گئے اس کی نگاہوں سے حجابات سبھی
جس نے اک بوند بھی پی لی ترے پیمانے کی
آپ کی یاد سے روشن ہیں تمنا کے چراغ
آپ کے دم سے ہے رونق مرے ویرانے کی
آپ کی نعت سے مربوط ہے اب میرا وجود
کچھ نہ تھی ورنہ حقیقت مرے افسانے کی
ہے مرے کیف سے اب کیف کا چشمہ جاری
خیر ہوساقیءکوثر ترے مے خانے کی
کوئی دشمن بھی جو آجائے تو دیتے ہیں اماں
میرے سرکار کو عادت نہیں ٹھکرانے کی
جب ترے نام سے آغازِ سخن کرتا ہے
ہر ادا دل میں اتر جاتی ہے مستانے کی
ہم تو بس نسبتِ سرکار پہ اتراتے ہیں
بات ورنہ تو نہ تھی کوئی بھی اترانے کی
عشقِ صدیق سے یہ درس ملا ہے خاؔلد
زیست ہے شمع کی آغوش میں پروانے کی