کرم پہ آئے تو نعت اتری وہ مسکرائے تو نعت اتری
یہ کیف سا کب تھا ان سے پہلے حضور آئے تو نعت اتری
کھلے صلاة وثنا کے غنچے وہ یاد آئے تو نعت اتری
حرا میں روح الامیں نےاقرا کےگیت گائے تو نعت اتری
ہوا کے شانوں پہ لطف حق نے دیئےجلائے تو نعت اتری
جبین آدم پہ نور بن کر وہ جگمگائے تو نعت اتری
ستارے پلکوں پہ اشک بن کر جوجھلملائے تو نعت اتری
اشارےاذن وعطاکےحق سے قلم نے پائے تو نعت اتری
خیال وفکروشعورمیں بس وہی سمائے تو نعت اتری
خدانےشہزاد خود کرم کے درر لٹائے تو نعت اتری
علامہ شہزاد مجددی