جو غمگسارِ غریباں وہ چشم ِ ناز نہ ہو
ہمارے عجز کی تلخی بہار ساز نہ ہو
ہر ایک اوج عبارت ہے تیری نسبت سے
وہ کچھ نہیں تری نسبت پہ جس کو ناز نہ ہو
یہ فیصلہ ہے کرم کا ہر اک کرم کی اساس
تری نگاہ سے پوشیدہ کوئی راز نہ ہو
نوازشیں تو مرے حال پر بہت ہیں مگر
مزا توجب ہے کہ دستِ طلب دراز نہ ہو
تمہاری یاد بھی محروم کیف رہتی ہے
جو آنکھ تر نہ ہو دل میں اگر گداز نہ ہو
رہے نہ میرے تصور میں گنبدا خضریٰ
خدا کرے مری ایسی کوئی نمازنہ ہو
اگر دعا میں نہ ہو واسطہ محمد کا
قبولیت کےلئے کوئی بھی جواز نہ ہو
مرا شعور مرے حق میں زہر بن جائے
مری طرف جو اگر چشم نیم باز نہ ہو
اگر وضو نہ میسر ہو مجھ کو اشکوں سے
خدا گواہ کہ خاؔلد مری نماز نہ ہو